سورج کی کرنوں کا گیت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سورج کی کرنوں کا گیت
by اختر شیرانی
319720سورج کی کرنوں کا گیتاختر شیرانی

سنہری سورج نے آسماں پر
کہا کہ کیا بھیجوں میں زمیں کو
یہ راگ تھا کرنوں کی زباں پر
زمیں پہ جانے دو تم ہمیں کو

ترس گیا دھوپ کو زمانہ
ہیں کب سے چھائی ہوئی گھٹائیں
جو آج کر دو ہمیں روانہ
زمین پر نور جا بچھائیں

گھٹا کے پردوں کو چاک کر دیں
زمین پر روشنی لٹائیں
چمن کو کیچڑ سے پاک کر دیں
درختوں سے کھیلیں اور کھلائیں

یہ گیت گاتی ہوئی جہاں میں
چھما چھم آئیں سنہری کرنیں
ہر ایک گھر میں ہر اک مکاں میں
مچل کے چھائیں سنہری کرنیں

جو بچے اس وقت سو رہے ہیں
یہ ان کے بستر پہ جھومتی ہیں
وہ چپ ہیں بے ہوش ہو رہے ہیں
یہ ان کی آنکھوں کو چومتی ہیں

یہ ان کے گالوں پہ گرتی ہیں
تو گال ہو جاتے ہیں سنہری
یہ ان کے بالوں پہ گرتی ہیں جب
تو بال ہو جاتے ہیں سنہری

رسیلی لے میں سنا رہی ہیں
کہ اٹھو جاگ اٹھو پیارے بچو
ہوائیں بھی گیت گا رہی ہیں
کہ آؤ اب کھیلو پیارے بچو

بس اٹھ کھڑے ہو ہماری خاطر
یہ سوچو آئے ہیں ہم کہاں سے
اور اس پہ دیکھو تمہاری خاطر
یہ تحفہ لائے ہیں آسماں سے

یہ تحفہ تم جانتے ہو کیا ہے
سنہری سورج کی روشنی ہے
وہ دیکھو سورج چمک رہا ہے
شفق کی وادی لہک رہی ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse