سنا ہے حال ترے کشتگاں بیچاروں کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سنا ہے حال ترے کشتگاں بیچاروں کا
by میر تقی میر

سنا ہے حال ترے کشتگاں بیچاروں کا
ہوا نہ گور گڑھا ان ستم کے ماروں کا

ہزار رنگ کھلے گل چمن کے ہیں شاہد
کہ روزگار کے سر خون ہے ہزاروں کا

ملا ہے خاک میں کس کس طرح کا عالم یاں
نکل کے شہر سے ٹک سیر کر مزاروں کا

عرق فشانی سے اس زلف کی ہراساں ہوں
بھلا نہیں ہے بہت ٹوٹنا بھی تاروں کا

علاج کرتے ہیں سودائے عشق کا میرے
خلل پذیر ہوا ہے دماغ یاروں کا

تری ہی زلف کو محشر میں ہم دکھا دیں گے
جو کوئی مانگے گا نامہ سیاہ کاروں کا

خراش سینۂ عاشق بھی دل کو لگ جائے
عجب طرح کا ہے فرقہ یہ دل فگاروں کا

نگاہ مست کے مارے تری خراب ہیں شوخ
نہ ٹھور ہے نہ ٹھکانا ہے ہوشیاروں کا

کریں ہیں دعویٰ خوش چشمی آہوان دشت
ٹک ایک دیکھنے چل ملک ان گنواروں کا

تڑپ کے مرنے سے دل کے کہ مغفرت ہو اسے
جہاں میں کچھ تو رہا نام بے قراروں کا

تڑپ کے خرمن گل پر کبھی گر اے بجلی
جلانا کیا ہے مرے آشیاں کے خاروں کا

تمہیں تو زہد و ورع پر بہت ہے اپنے غرور
خدا ہے شیخ جی ہم بھی گناہ گاروں کا

اٹھے ہے گرد کی جا نالہ گور سے اس کی
غبار میرؔ بھی عاشق ہے نے سواروں کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse