سحر گہہ عید میں دور سبو تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سحر گہہ عید میں دور سبو تھا
by میر تقی میر

سحر گہہ عید میں دور سبو تھا
پر اپنے جام میں تجھ بن لہو تھا

غلط تھا آپ سے غافل گزرنا
نہ سمجھے ہم کہ اس قالب میں تو تھا

چمن کی وضع نے ہم کو کیا داغ
کہ ہر غنچہ دل پر آرزو تھا

گل و آئینہ کیا خورشید و مہ کیا
جدھر دیکھا تدھر تیرا ہی رو تھا

کرو گے یاد باتیں تو کہو گے
کہ کوئی رفتۂ بسیار گو تھا

جہاں پر ہے فسانے سے ہمارے
دماغ عشق ہم کو بھی کبھو تھا

مگر دیوانہ تھا گل بھی کسو کا
کہ پیراہن میں سو جاگا رفو تھا

کہیں کیا بال تیرے کھل گئے تھے
کہ جھونکا باؤ کا کچھ مشکبو تھا

نہ دیکھا میرؔ آوارہ کو لیکن
غبار اک ناتواں سا کو بہ کو تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse