سجاد کو فلک نے کس کس طرح ستایا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سجاد کو فلک نے کس کس طرح ستایا
by میر تقی میر

سجاد کو فلک نے کس کس طرح ستایا
کنبے کو ووں کھپایا گھر بار یوں لٹایا
سر باپ کا کٹایا تھا سر پہ جس کا سایہ
لاشے کو اس کے تس پر یوں دھوپ میں جلایا

رخصت نہ تھی کہ مردہ اس کا اٹھا کے جاوے
مہلت نہ تھی کہ گھر کے لوگوں کے تیں چھپاوے
فرصت نہ تھی کہ رسمیں میت کی کرنے پاوے
ہر گام ضعف تن نے سو مرتبہ گرایا

گھر کی طرف جو دیکھا سو لٹتے گھر کو دیکھا
بھائی میں دم نہ دیکھا بے سر پدر کو دیکھا
دیکھا جدھر نہ اپنا کوئی ادھر کو دیکھا
ہوتا کوئی تو کہتا تو پرسے کو نہ آیا

آغشتہ خاک و خوں میں جو تھے ہوئے پڑے تھے
جوں اشک یار و یاور سارے چوئے پڑے تھے
مشفق پدر برادر دونوں موئے پڑے تھے
شفقت نہ کی کنھوں نے احوال تو دکھایا

نے کوئی یار جانی نے لطف کچھ زبانی
کھانا ملا نہ پانی کاہے کی زندگانی
غیروں کی سرگرانی پھر اپنی ناتوانی
طاقت نہ تھی بدن میں پر کیا ستم اٹھایا

قوت نہ پاؤں سر میں حیراں غم پدر میں
باقی نہ کچھ جگر میں نومیدی سی نظر میں
دشمن تمام گھر میں ناموس رہگذر میں
غیرت نے دل جلایا خجلت نے جاں کھپایا

کہتا تھا یوں وہ مہموم غم میں سبھوں کے مغموم
عمو موا ہو مسموم مقتول جد مرحوم
بابا کفن سے محروم میں ہوں اسیر مظلوم
دو ہاتھ جو کھلے تھے سو ان کو بھی بندھایا

کیا تپ نے تن میں چھوڑا خوں جملگی نچوڑا
خالی پدر کا گھوڑا دکھلاویں غیر کوڑا
دل جیسے پکا پھوڑا ہر دم ہو تھوڑا تھوڑا
پرخار بادیہ میں ننگے قدم چلایا

حالت تھی اضطراری اک دل میں بے قراری
آنکھوں سے اشک جاری ہونٹوں پہ آہ و زاری
وہ جسم کی نزاری دکھ اس طرح کا بھاری
جب آنکھ اٹھا کے دیکھا تب ایک داغ کھایا

بیمار وہ گراں تھا ازبسکہ ناتواں تھا
آرام اسے کہاں تھا ساتھ ایک کارواں تھا
غم کا کبھو بیاں تھا روتا کبھوں رواں تھا
کیا رسم رحم یکسر واں اٹھ گئی تھی آیا

اصغر موا بچارا اکبر سو ووں سدھارا
قاسم کو جی سے مارا بابا کا سر اتارا
قوم و قبیلہ سارا یوں کر گیا کنارہ
پانی دیا نہ قطرہ دریاے خوں بہایا

جامہ گلے میں آبی لب خشک دل کبابی
گھر بار کی خرابی اندوہ بے حسابی
پھر سب کی پرعتابی چلنے کی یہ شتابی
نے باپ کو اٹھایا نے بھائی کو گڑایا

وہ انکسار اس کا کوئی نہ یار اس کا
دل سب نزار اس کا جی بے قرار اس کا
جنگل گذار اس کا چھوٹا دیار اس کا
کر رحم پاس اس کے کنبہ تنک بلایا

ہر طرف شور و شر تھا درپیش اسے سفر تھا
آگے سر پدر تھا لٹتا ادھر کو گھر تھا
صبر آہ کس قدر تھا اللہ کیا جگر تھا
یہ کچھ ستم اٹھایا پر منھ پہ کچھ نہ آیا

لاشوں پہ ہو نکلنا ناچار پاؤں چلنا
سینے میں جی کا جلنا شرمندگی سے گلنا
رہ رہ کے ہاتھ ملنا حیرت سے لب نہ ہلنا
دل تو ہوا تھا خوں سب یہ غم کہاں سمایا

جاہ و حشم کو رووے ناز و نعم کو رووے
بابا کے دم کو رووے اہل حرم کو رووے
فرط الم کو رووے یا چشم نم کو رووے
غم نے جدا کھپایا تپ نے جدا سکھایا

بیماری بے دوائی بختوں کی نارسائی
بابا رہا نہ بھائی ان سب کو موت آئی
یاروں کی بے وفائی لوگوں کی بے روائی
اسباب کی کمی نے بہتیرا ہے کڑھایا

جو تھا سو واں کمینہ اس کا کہاں قرینہ
ہر اک کو اس سے کینہ دشوار اس کا جینا
ہر گام لوہو پینا آ آگیا پسینہ
پھر جسم کے مرض نے جی کو بہت گھٹایا

بابا کی جستجو میں ملنے کی آرزو میں
اک حزن گفتگو میں اک درد مو بہ مو میں
طوق گراں گلو میں پھر سر پہ ایسی دھومیں
اس خاک میں ملے کو کیا خاک میں ملایا

قوت کوئی جتاوے باتیں کوئی بتاوے
کوڑا کوئی دکھاوے کڑیاں کوئی سناوے
وہ آنکھ کیا ملاوے رونا چلا ہی آوے
بے چارے ناتواں پر کیا زور آزمایا

پلکیں رہیں نہ کیوں تر آنکھیں نہ لاوے کیوں بھر
وہ دشت اور وہ در پھر اس پہ سیکڑوں ڈر
پیدا نہ ہووے رہبر کھویا نہ جاوے کیوں کر
بیکس کھنچا جو آیا سر باپ کا نہ پایا

جنگل میں آ اترنا بابا کا مفت مرنا
تنہائی کا گذرنا درد اپنا سب بسرنا
دکھ اس طرح کا بھرنا ناچار صبر کرنا
بندہ تھا وہ بھی لیکن کیا ظرف تھا خدایا

القصہ لوگ سارے جی سے گئے بچارے
بیٹے بھتیجے پیارے شہ کے تمام مارے
تاچند کڑھیے بارے دکھ کھینچ کھینچ ہارے
ان شہریوں نے مر کر جنگل وہ سب بسایا

باقی اسیر تھے سب فریاد و نالہ برلب
مت پوچھنا کوئی اب تھا دن سیاہ جوں شب
ہے میرؔ بات بے ڈھب خاموشی ہی ہے انسب
ان قیدیوں کو کن نے ہو ملتفت چھڑایا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse