سب چلے تیرے آستاں کو چھوڑ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سب چلے تیرے آستاں کو چھوڑ
by شیخ قلندر بخش جرات
296699سب چلے تیرے آستاں کو چھوڑشیخ قلندر بخش جرات

سب چلے تیرے آستاں کو چھوڑ
بد زباں اب تو اس زباں کو چھوڑ

مت اٹھا یار تیرے کوچے میں
آن بیٹھے ہیں دو جہاں کو چھوڑ

وقت سختی کے آہ جاتی ہے
جان بھی جسم ناتواں کو چھوڑ

صحبت راست کب ہو کج سے برآر
تیر آخر چلا کماں کو چھوڑ

دست بیداد باغباں سے آہ
ہم چلے آخر آشیاں کو چھوڑ

باغ سے وہ پھرا تو مرغ چمن
لگ چلے ساتھ گلستاں کو چھوڑ

ناتوانی سے مثل نقش قدم
رہے ناچار کارواں کو چھوڑ

ہم نشیں کہہ تمام قصۂ عشق
آج کل پر نہ داستاں کو چھوڑ

یہ مرا حال ہے جو وہ قاتل
اٹھ گیا دم کے میہماں کو چھوڑ

جس طرح پھیر حلق پر خنجر
دے کوئی مرغ نیم جاں کو چھوڑ

کر جوانی پہ رحم جرأتؔ کی
بس غم عشق اس جواں کو چھوڑ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse