زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت
by میر تقی میر

زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت
دل لگا کر ہم تو پچھتائے بہت

جب نہ تب جاگہ سے تم جایا کیے
ہم تو اپنی اور سے آئے بہت

دیر سے سوئے حرم آیا نہ ٹک
ہم مزاج اپنا ادھر لائے بہت

پھول گل شمس و قمر سارے ہی تھے
پر ہمیں ان میں تمہیں بھائے بہت

گر بکا اس شور سے شب کو ہے تو
روویں گے سونے کو ہم سایے بہت

وہ جو نکلا صبح جیسے آفتاب
رشک سے گل پھول مرجھائے بہت

میرؔ سے پوچھا جو میں عاشق ہو تم
ہو کے کچھ چپکے سے شرمائے بہت

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse