رہے خیال تنک ہم بھی رو سیاہوں کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رہے خیال تنک ہم بھی رو سیاہوں کا
by میر تقی میر

رہے خیال تنک ہم بھی رو سیاہوں کا
لگے ہو خون بہت کرنے بے گناہوں کا

نہیں ستارے یہ سوراخ پڑ گئے ہیں تمام
فلک حریف ہوا تھا ہماری آہوں کا

گلی میں اس کی پھٹے کپڑوں پر مرے مت جا
لباس فقر ہے واں فخر بادشاہوں کا

تمام زلف کے کوچے ہیں مار پیچ اس کی
تجھی کو آوے دلا چلنا ایسی راہوں کا

اسی جو خوبی سے لائے تجھے قیامت میں
تو حرف کن نے کیا گوش دادخواہوں کا

تمام عمر رہیں خاک زیر پا اس کی
جو زور کچھ چلے ہم عجز دست گاہوں کا

کہاں سے تہ کریں پیدا یہ ناظمان حال
کہ پوچ بافی ہی ہے کام ان جلاہوں کا

حساب کاہے کا روز شمار میں مجھ سے
شمار ہی نہیں ہے کچھ مرے گناہوں کا

تری جو آنکھیں ہیں تلوار کے تلے بھی ادھر
فریب خوردہ ہے تو میرؔ کن نگاہوں کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse