رہی نگفتہ مرے دل میں داستاں میری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رہی نگفتہ مرے دل میں داستاں میری
by میر تقی میر

رہی نگفتہ مرے دل میں داستاں میری
نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری

برنگ صوت جرس تجھ سے دور ہوں تنہا
خبر نہیں ہے تجھے آہ کارواں میری

ترے نہ آج کے آنے میں صبح کے مجھ پاس
ہزار جائے گئی طبع بدگماں میری

وہ نقش پئے ہوں میں مٹ گیا ہو جو رہ میں
نہ کچھ خبر ہے نہ سدھ ہے گی رہ رواں میری

شب اس کے کوچے میں جاتا ہوں اس توقع پر
کہ ایک دوست ہے واں خواب پاسباں میری

اسی سے دور رہا اصل مدعا جو تھا
گئی یہ عمر عزیز آہ رائیگاں میری

ترے فراق میں جیسے خیال مفلس کا
گئی ہے فکر پریشاں کہاں کہاں میری

نہیں ہے تاب و تواں کی جدائی کا اندوہ
کہ ناتوانی بہت ہے مزاج داں میری

رہا میں در پس دیوار باغ مدت لیک
گئی گلوں کے نہ کانوں تلک فغاں میری

ہوا ہوں گریۂ خونیں کا جب سے دامن گیر
نہ آستین ہوئی پاک دوستاں میری

دیا دکھائی مجھے تو اسی کا جلوہ میرؔ
پڑی جہان میں جا کر نظر جہاں میری

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse