رہتا ہے ہڈیوں سے مری جو ہما لگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رہتا ہے ہڈیوں سے مری جو ہما لگا
by میر تقی میر

رہتا ہے ہڈیوں سے مری جو ہما لگا
کچھ درد عاشقی کا اسے بھی مزہ لگا

غافل نہ سوز عشق سے رہ پھر کباب ہے
گر لائحہ اس آگ کا ٹک دل کو جا لگا

دیکھا ہمیں جہاں وہ تہاں آگ ہو گیا
بھڑکا رکھا ہے لوگوں نے اس کو لگا لگا

مہلت تنک بھی ہو تو سخن کچھ اثر کرے
میں اٹھ گیا کہ غیر ترے کانوں آ لگا

اب آب چشم ہی ہے ہمارا محیط خلق
دریا کو ہم نے کب کا کنارے رکھا لگا

ہر چند اس کی تیغ ستم تھی بلند لیک
وہ طور بد ہمیں تو قیامت بھلا لگا

مجلس میں اس کی بار نہ مجھ کو ملی کبھو
دروازے ہی سے گرچہ بہت میں رہا لگا

بوسہ لبوں کا مانگتے ہی منہ بگڑ گیا
کیا اتنی میری بات کا تم کو برا لگا

عالم کی سیر میرؔ کی صحبت میں ہو گئی
طالع سے میرے ہاتھ یہ بے دست و پا لگا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse