رنج کھینچے تھے داغ کھائے تھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رنج کھینچے تھے داغ کھائے تھے
by میر تقی میر

رنج کھینچے تھے داغ کھائے تھے
دل نے صدمے بڑے اٹھائے تھے

پاس ناموس عشق تھا ورنہ
کتنے آنسو پلک تک آئے تھے

وہی سمجھا نہ ورنہ ہم نے تو
زخم چھاتی کے سب دکھائے تھے

اب جہاں آفتاب میں ہم ہیں
یاں کبھو سرو و گل کے سائے تھے

کچھ نہ سمجھے کہ تجھ سے یاروں نے
کس توقع پہ دل لگائے تھے

فرصت زندگی سے مت پوچھو
سانس بھی ہم نہ لینے پائے تھے

میرؔ صاحب رلا گئے سب کو
کل وے تشریف یاں بھی لائے تھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse