رمق ایک جان وبال ہے کوئی دم جو ہے تو عذاب ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رمق ایک جان وبال ہے کوئی دم جو ہے تو عذاب ہے
by میر تقی میر

رمق ایک جان وبال ہے کوئی دم جو ہے تو عذاب ہے
دل داغ گشتہ کباب ہے جگر گداختہ آب ہے

مری خلق محو کلام سب مجھے چھوڑتے ہیں خموش کب
مرا حرف رشک کتاب ہے مری بات لکھنے کا باب ہے

جو وہ لکھتا کچھ بھی تو نامہ بر کوئی رہتی منہ میں ترے نہاں
تری خامشی سے یہ نکلے ہے کہ جواب خط کا جواب ہے

رہے حال دل کا جو ایک سا تو رجوع کرتے کہیں بھلا
سو تو یہ کبھو ہمہ داغ ہے کبھو نیم سوز کباب ہے

کہیں گے کہو تمہیں لوگ کیا یہی آرسی یہی تم سدا
نہ کسو کی تم کو ہے ٹک حیا نہ ہمارے منہ سے حجاب ہے

چلو میکدے میں بسر کریں کہ رہی ہے کچھ برکت وہیں
لب نا توواں کا کباب ہے دم آب واں کا شراب ہے

نہیں کھلتیں آنکھیں تمہاری ٹک کہ مآل پر بھی نظر کرو
یہ جو وہم کی سی نمود ہے اسے خوب دیکھو تو خواب ہے

گئے وقت آتے ہیں ہاتھ کب ہوئے ہیں گنوا کے خراب سب
تجھے کرنا ہووے سو کر تو اب کہ یہ عمر برق شتاب ہے

کبھو لطف سے نہ سخن کیا کبھو بات کہہ نہ لگا لیا
یہی لحظہ لحظہ خطاب ہے وہی لمحہ لمحہ عتاب ہے

تو جہاں کے بحر عمیق میں سر پر ہوا نہ بلند کر
کہ یہ پنج روزہ جو بود ہے کسو موج پر کا حباب ہے

رکھو آرزو مئے خام کی کرو گفتگو خط جام کی
کہ سیاہ کاروں سے حشر میں نہ حساب ہے نہ کتاب ہے

مرا شور سن کے جو لوگوں نے کیا پوچھنا تو کہے ہے کیا
جسے میرؔ کہتے ہیں صاحبو یہ وہی تو خانہ خراب ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse