رات گزرے ہے مجھے نزع میں روتے روتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رات گزرے ہے مجھے نزع میں روتے روتے
by میر تقی میر

رات گزرے ہے مجھے نزع میں روتے روتے
آنکھیں پھر جائیں گی اب صبح کے ہوتے ہوتے

کھول کر آنکھ اڑا دید جہاں کا غافل
خواب ہو جائے گا پھر جاگنا سوتے سوتے

داغ اگتے رہے دل میں مری نومیدی سے
ہارا میں تخم تمنا کو بھی بوتے بوتے

جی چلا تھا کہ ترے ہونٹ مجھے یاد آئے
لعل پائیں ہیں میں اس جی ہی کے کھوتے کھوتے

جم گیا خوں کف قاتل پہ طرح میرؔ زبس
ان نے رو رو دیا کل ہاتھ کو دھوتے دھوتے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse