رات کیا کیا مجھے ملال نہ تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رات کیا کیا مجھے ملال نہ تھا
by شیخ قلندر بخش جرات
296700رات کیا کیا مجھے ملال نہ تھاشیخ قلندر بخش جرات

رات کیا کیا مجھے ملال نہ تھا
خواب کا تو کہیں خیال نہ تھا

آج کیا جانے کیا ہوا ہم کو
کل بھی ایسا تو جی نڈھال نہ تھا

بولے سب دیکھ میری جاں کاوی
یہ تو فرہاد کا بھی حال نہ تھا

جب تلک ہم نہ چاہتے تھے تجھے
تب تک ایسا ترا جمال نہ تھا

اب تو دل لگ گیا ہے کیوں کہ نہ آئیں
پہلے کہتے تو کچھ محال نہ تھا

ٹل گیا دیکھ یوں ترا ابرو
کہ گویا چرخ پر ہلال نہ تھا

ٹک نہ ٹھہرا مرے وہ پاس آ کر
کچھ تماشا تھا یہ وصال نہ تھا

دیکھ شب اپنے رشک لیلیٰ کو
دنگ تھا میں تو مجھ میں حال نہ تھا

سن کے بولا تمام قصۂ قیس
عشق کا اس کو بھی کمال نہ تھا

اتنا رویا لہو تو کب جرأتؔ
ابھی دامن ترا تو لال نہ تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse