رات پیاسا تھا میرے لوہو کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رات پیاسا تھا میرے لوہو کا
by میر تقی میر

رات پیاسا تھا میرے لوہو کا
ہوں دوانہ ترے سگ کو کا

شعلۂ آہ جوں توں اب مجھ کو
فکر ہے اپنے ہر بن مو کا

ہے مرے یار کی مسوں کا رشک
کشتہ ہوں سبزۂ لب جو کا

بوسہ دینا مجھے نہ کر موقوف
ہے وظیفہ یہی دعا گو کا

میں نے تلوار سے ہرن مارے
عشق کر تیری چشم و ابرو کا

شور قلقل کے ہوتی تھی مانع
ریش قاضی پہ رات میں تھوکا

عطر آگیں ہے باد صبح مگر
کھل گیا پیچ زلف خوشبو کا

ایک دو ہوں تو سحر چشم کہوں
کارخانہ ہے واں تو جادو کا

میرؔ ہر چند میں نے چاہا لیک
نہ چھپا عشق طفل بد خو کا

نام اس کا لیا ادھر اودھر
اڑ گیا رنگ ہی مرے رو کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse