رات سے آنسو مری آنکھوں میں پھر آنے لگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رات سے آنسو مری آنکھوں میں پھر آنے لگا
by میر تقی میر

رات سے آنسو مری آنکھوں میں پھر آنے لگا
یک رمق جی تھا بدن میں سو بھی گھبرانے لگا

وہ لڑکپن سے نکل کر تیغ چمکانے لگا
خون کرنے کا خیال اب کچھ اسے آنے لگا

لعل جاں بخش اس کے تھے پوشیدہ جوں آب حیات
اب تو کوئی کوئی ان ہونٹھوں پہ مر جانے لگا

حیف میں اس کے سخن پر ٹک نہ رکھا گوش کو
یوں تو ناصح نے کہا تھا دل نہ دیوانے لگا

حبس دم کے معتقد تم ہو گے شیخ شہر کے
یہ تو البتہ کہ سن کر لعن دم کھانے لگا

گرم ملنا اس گل نازک طبیعت سے نہ ہو
چاندنی میں رات بیٹھا تھا سو مرجھانے لگا

عاشقوں کی پائمالی میں اسے اصرار ہے
یعنی وہ محشر خرام اب پاؤں پھیلانے لگا

چشمک اس مہ کی سی دل کش دید میں آئی نہیں
گو ستارہ صبح کا بھی آنکھ جھپکانے لگا

کیونکر اس آئینہ رو سے میرؔ ملیے بے حجاب
وہ تو اپنے عکس سے بھی دیکھو شرمانے لگا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse