دیوان غالب/غزلیات/ردیف ن

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیوان غالب by مرزا اسد اللہ خان غالب
ردیف ن


لوں وام بختِ خفتہ سے ایک خوابِ خوش ولے لیکن یہ خوف ہے کہ کہاں سے ادا کروں

104[edit]

وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں

فرصتِ کاروبارِ شوق کسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں

دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خطّ و خال کہاں

تھی وہ اک شخص کے تصّور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں

ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میں‌طاقت، جگر میں حال کہاں

ہم سے چھوٹا "قمار خانۂ عشق"
واں جو جاویں، گرہ میں مال کہاں

فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں

مضمحل ہو گئے قویٰ غالب
وہ عناصر میں اعتدال کہاں

105[edit]

کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں

آج ہم اپنی پریشانئِ خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھئے کیا کہتے ہیں

اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انہیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں

دل میں آ جائے ہے، ہوتی ہے جو فرصت غش سے
اور پھر کون سے نالے کو رسا کہتے ہیں

ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود
قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں

پائے افگار پہ جب سے تجھے رحم آیا ہے
خارِ رہ کو ترے ہم مہرِ گیا کہتے ہیں

اک شرر دل میں ہے اُس سے کوئی گھبرائے گا کیا
آگ مطلوب ہے ہم کو ،جو ہَوا کہتے ہیں

دیکھیے لاتی ہے اُس شوخ کی نخوت کیا رنگ
اُس کی ہر بات پہ ہم ’نامِ خدا‘ کہتے ہیں

وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید
مر گیا غالب آشفتہ نوا، کہتے ہیں


106[edit]

آبرو کیا خاک اُس گُل کی۔ کہ گلشن میں نہیں
ہے گریبان ننگِ پیراہن جو دامن میں نہیں

ضعف سے اے گریہ کچھ باقی مرے تن میں نہیں
رنگ ہو کر اڑ گیا، جو خوں کہ دامن میں نہیں

ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاہِ آفتاب
ذرّے اُس کے گھر کی دیواروں کے روزن میں نہیں

کیا کہوں تاریکئِ زندانِ غم اندھیر ہے
پنبہ نورِ صبح سے کم جس کے روزن میں‌ نہیں

رونقِ ہستی ہے عشقِ خانہ ویراں ساز سے
انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں

زخم سِلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کا ہے طعن
غیر سمجھا ہے کہ لذّت زخمِ سوزن میں نہیں

بس کہ ہیں ہم* اک بہارِ ناز کے مارے ہوُے
جلوۂ گُل کے سِوا گرد اپنے مدفن میں نہیں

قطرہ قطرہ اک ہیولیٰ ہے نئے ناسور کا
خُوں بھی ذوقِ درد سے، فارغ مرے تن میں نہیں

لے گئی ساقی کی نخوت قلزم آشامی مری
موجِ مے کی آج رگ، مینا کی گردن میں نہیں

ہو فشارِ ضعف میں کیا نا توانی کی نمود؟
قد کے جھکنے کی بھی گنجائش مرے تن میں نہیں

تھی وطن میں شان کیا غالب کہ ہو غربت میں قدر
بے تکلّف، ہوں وہ مشتِ خس کہ گلخن میں نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  • نسخۂ مہر اور آسی میں " ہم ہیں" درج ہے

107[edit]

عہدے سے مدِح‌ناز کے باہر نہ آ سکا
گراک ادا ہو تو اُسے اپنی قضا کہوں

حلقے ہیں چشم ہائے کشادہ بسوئے دل
ہر تارِ زلف کو نگہِ سُرمہ سا کہوں

میں، اور صد ہزار نوائے جگر خراش
تو، اور ایک وہ نہ شنیدن کہ کیا کہوں

ظالم مرے گماں سے مجھے منفعل نہ چاہ
ہَے ہَے خُدا نہ کردہ، تجھے بے وفا کہوں


108[edit]

مہرباں ہو کے بلالو مجھے، چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں‌کہ پھر آ بھی نہ سکوں

ضعف میں طعنۂ اغیار کا شکوہ کیا ہے
بات کچھ سَر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں

زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستمگر، ورنہ
کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں


109[edit]

ہم سے کھل جاؤ بوقتِ مے پرستی ایک دن
ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عُذرِ مستی ایک دن

غرّۂِ اوجِ بِنائے عالمِ امکاں نہ ہو
اِس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

نغمہ ہائے غم کو ہی اے دل غنیمت جانیے
بے صدا ہو جائے گا یہ سازِ ہستی ایک دن

دَھول دَھپّا اُس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن

110[edit]

ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
اِک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں

کس منہ سے شکر کیجئے اس لطف خاص کا
پرسش ہے اور پائے سخن درمیاں نہیں

ہم کو ستم عزیز، ستم گر کو ہم عزیز
نا مہرباں نہیں ہے اگر مہرباں نہیں

بوسہ نہیں، نہ دیجیے دشنام ہی سہی
آخر زباں تو رکھتے ہو تم، گر دہاں نہیں

ہر چند جاں گدازئِ قہروعتاب ہے
ہر چند پشت گرمئِ تاب و تواں نہیں

جاں مطربِ ترانہ ھَل مِن مَزِید ہے
لب پر دہ سنجِ زمزمۂِ الاَماں نہیں

خنجر سے چیر سینہ اگر دل نہ ہو دو نیم
دل میں چُھری چبھو مژہ گر خونچکاں نہیں

ہے ننگِ سینہ دل اگر آتش کدہ نہ ہو
ہے عارِدل نفس اگر آذر فشاں نہیں

نقصاں نہیں جنوں میں بلا سے ہو گھر خراب
سو گز زمیں کے بدلے بیاباں گراں نہیں

کہتے ہو “ کیا لکھا ہے تری سرنوشت میں“
گویا جبیں پہ سجدۂ بت کا نشاں نہیں

پاتا ہوں اس سے داد کچھ اپنے کلام کی
رُوح القُدُس اگرچہ مرا ہم زباں نہیں

جاں ہے بہائے بوسہ ولے کیوں کہے ابھی
غالب کو جانتا ہے کہ وہ نیم جاں‌نہیں

111[edit]

مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
ایک چکّر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں

شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو،کہ جہاں
جادہ غیر از نگہِ دیدۂِ تصویر نہیں

حسرتِ لذّتِ آزار رہی جاتی ہے
جادۂ راہِ وفا جز دمِ شمشیر نہیں

رنجِ نو میدیِ جاوید گوارا رہیو
خوش ہوں گر نالہ زبونی کشِ تاثیر نہیں

سر کھجاتا ہے جہاں زخمِ سر اچھا ہو جائے
لذّتِ سنگ بہ اندازۂِ تقریر نہیں

جب کرم رخصتِ بیباکی و گستاخی دے
کوئی تقصیر بجُز خجلتِ تقصیر نہیں

غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخ
’آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں‘

112[edit]

مت مردُمکِ دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں
ہیں جمع سُویداۓ دلِ چشم میں آہیں


113[edit]

برشکالِ* گریۂ عاشق ہے* دیکھا چاہۓ
کھِل گئی ماندِ گلُ سوَ جا سے دیوارِ چمن

اُلفتِ گل سے غلط ہے دعوئ وارستگی
سرو ہے باوصفِ آزادی گرفتارِ چمن

ہے نزاکت بس کہ فصلِ گل میں معمارِ چمن
قالبِ گل میں ڈھلی ہے خشتِ دیوارِ چمن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  • ’طباطبائ میں ہے کی جگہ ’بھی‘ ہے۔


114[edit]

عشق تاثیر سے نومید نہیں
جاں سپاری شجرِ بید نہیں

سلطنت دست بَدَست آئی ہے
جامِ مے خاتمِ جمشید نہیں

ہے تجلی تری سامانِ وجود
ذرّہ بے پر توِ خورشید نہیں

رازِ معشوق نہ رسوا ہو جائے
ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں

گردشِ رنگِ طرب سے ڈر ہے
غمِ محرومئ جاوید نہیں

کہتے ہیں جیتے ہیں اُمّید پہ لوگ
ہم کو جینے کی بھی امّید نہیں

115[edit]

جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں اِرم دیکھتے ہیں

دل آشفتگاں خالِ کنجِ دہن کے
سویدا میں سیرِ عدم دیکھتے ہیں

ترے سروِ قامت سے اک قدِ آدم
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں

تماشا کر اے محوِ آئینہ داری
تجھے کس تمنّا سے ہم دیکھتے ہیں

سراغِ تُفِ نالہ لے داغِ دل سے
کہ شب رَو کا نقشِ قدم دیکھتے ہیں

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں


116[edit]

ملتی ہے خُوئے یار سے نار التہاب میں
کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عزاب میں

کب سے ہُوں۔ کیا بتاؤں جہانِ خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں

تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر
آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں

مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں

جو منکرِ وفا ہو فریب اس پہ کیا چلے
کیوں بدگماں ہوں دوست سے دشمن کے باب میں

میں مضطرب ہُوں وصل میں خوفِ رقیب سے
ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں

میں اور حظِّ وصل خدا ساز بات ہے
جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں

ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے
ہے اک شکن پڑی ہوئی طرفِ نقاب میں

لاکھوں لگاؤ ایک چُرانا نگاہ کا
لاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب میں

وہ نالہ دل میں خس کے برابر جگہ نہ پائے
جس نالے سے شگاف پڑے آفتاب میں

وہ سحر مدعا طلبی میں کام نہ آئے
جس سِحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں

غالب چُھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روزِ ابر و شبِ ماہتاب میں


117[edit]

کل کے لئے کر آج نہ خسّت شراب میں
یہ سُوء ظن ہے ساقئ کوثر کے باب میں

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخئ فرشتہ ہماری جناب میں

جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دمِ سماع
گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں

رَو میں‌ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

اتنا ہی مجھ کو اپنی حقیقت سے بُعد ہے
جتنا کہ وہمِ غیر سے ہُوں پیچ و تاب میں

اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں

ہے مشتمل نمُودِ صُوَر پر وجودِ بحر
یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج و حباب میں

شرم اک ادائے ناز ہے اپنے ہی سے سہی
ہیں کتنے بے حجاب کہ ہیں یُوں حجاب میں

آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں

ہے غیبِ غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں‌خواب میں ہنوز، جو جاگے ہیں خواب میں

غالب ندیمِ دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغولِ حق ہوں، بندگئ بُو تراب میں


118[edit]

حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں

چھوڑا نہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں
ہر اک سے پُو چھتا ہوں کہ “ جاؤں کدھر کو مَیں“

جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
اے کاش جانتا نہ تری رہ گزر کو مَیں

ہے کیا، جو کس* کے باندھیے میری بلا ڈرے
کیا جانتا نہیں ہُوں تمھاری کمر کو مَیں

لو، وہ بھی کہ رہے ہیں کہ بے ننگ و نام ہے‘
یہ جانتا اگر، تو لُٹاتا نہ گھر کو مَیں

چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہُوں ابھی راہبر کو مَیں

خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار
کیا پُوجتا ہوں اس بُتِ بیداد گر کو مَیں

پھر بے خودی میں بھول گیا راہِ کوئے یار
جاتا وگرنہ ایک دن اپنی خبر کو مَیں

اپنے پہ کر رہا ہُوں قیاس اہلِ دہر کا
سمجھا ہوں دل پذیر متاعِ ہُنر کو میں

غالب خدا کرے کہ سوارِ سمندِ ناز
دیکھوں علی بہادرِ عالی گُہر کو مَیں

119[edit]

ذکر میرا بہ بدی بھی، اُسے منظور نہیں
غیر کی بات بگڑ جائے تو کچھ دُور نہیں

وعدۂِ سیرِ گلستاں ہے، خوشا طالعِ شوق
مژدۂ قتل مقدّر ہے جو مذکور نہیں

شاہدِ ہستئ مطلق کی کمر ہے عالَم
لوگ کہتے ہیں کہ ’ ہے‘ پر ہمیں‌منظور نہیں

قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن
ہم کو تقلیدِ تُنک ظرفئ منصور نہیں

حسرت! اے ذوقِ خرابی، کہ وہ طاقت نہ رہی
عشقِ پُر عربَدہ کی گوں تنِ رنجور نہیں

ظلم کر ظلم! اگر لطف دریغ آتا ہو
تُو تغافل میں‌کسی رنگ سے معذور نہیں

میں جو کہتا ہوں کہ ہم لیں گے قیامت میں تمھیں
کس رعونت سے وہ کہتے ہیں کہ “ ہم حور نہیں“

صاف دُردی کشِ پیمانۂ جم ہیں ہم لوگ
وائے! وہ بادہ کہ افشردۂ انگور نہیں

ہُوں ظہوری کے مقابل میں خفائی غالب
میرے دعوے پہ یہ حجّت ہےکہ مشہور نہیں


120[edit]

نالہ جُز حسنِ طلب، اے ستم ایجاد نہیں
ہے تقاضائے جفا، شکوۂ بیداد نہیں

عشق و مزدوریِ عشرت گہِ خسرو، کیا خُوب!
ہم کو تسلیم نکو نامئ فرہاد نہیں

کم نہیں وہ بھی خرابی میں، پہ وسعت معلوم
دشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد نہیں

اہلِ بینش کو ہے طوفانِ حوادث مکتب
لطمۂ موج کم از سیلئِ استاد نہیں

وائے مظلومئ تسلیم! وبداحالِ وفا!
جانتا ہے کہ ہمیں طاقتِ فریاد نہیں

رنگِ تمکینِ گُل و لالہ پریشاں کیوں ہے؟
گر چراغانِ سرِ راہ گُزرِ باد نہیں

سَبَدِ گُل کے تلے بند کرے ہے گلچیں!
مژدہ اے مرغ! کہ گلزار میں صیّاد نہیں

نفی سے کرتی ہے اثبات طراوش* گویا
دی ہی جائے دہن اس کو دمِ ایجاد “ نہیں“

کم نہیں جلوہ گری میں ترے کوچے سے بہشت
یہی نقشہ ہے ولے، اس قدر آباد نہیں

کرتے کس منہ سے ہو غربت کی شکایت غالب
تم کو بے مہرئ یارانِ وطن یاد نہیں؟


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  • نسخۂ مہر میں ’تراوش‘


121[edit]

دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں

تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار رہ گئے
تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں؟

کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ اہلِ بزم؟
ہو غم ہی جاں گداز تو غم خوار کیا کریں؟

122[edit]

ہو گئی ہے غیر کی شیریں بیانی کارگر
عشق کا اس کو گماں ہم بے زبانوں پر نہیں


123[edit]

قیامت ہے کہ سن لیلیٰ کا دشتِ قیس میں آنا
تعجّب سے وہ بولا ’یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں؟‘

دلِ نازک پہ اس کے رحم آتا ہے مجھے غالب
نہ کر سرگرم اس کافر کو اُلفت آزمانے میں


124[edit]

دل لگا کر لگ گیا اُن کو بھی تنہا بیٹھنا
بارے اپنی بے کسی کی ہم نے پائی داد، یاں

ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام
مہرِ گردوں ہے چراغِ رہگزارِ باد، یاں

125[edit]

یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں

وہ آئیں* گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

نظر لگے نہ کہیں اُس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں

ترے جواہرِ طرفِ کُلہ کو کیا دیکھیں
ہم اوجِ طالعِ لعل و گہر کو دیکھتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  • نسخۂ نظامی میں ’آۓ‘


126[edit]

نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
شبِ فراق سے روزِ جزا زیاد نہیں

کوئی کہے کہ ’شبِ مَہ میں کیا بُرائی ہے‘
بلا سے آج اگر دن کو ابر و باد نہیں

جو آؤں سامنے اُن کے تو مرحبا نہ کہیں
جو جاؤں واں سے کہیں کو تو خیر باد نہیں

کبھی جو یاد بھی آتا ہوں میں، تو کہتے ہیں
کہ ’ آج بزم میں کچھ فتنۂ و فساد نہیں‘

علاوہ عید کے ملتی ہے اور دن بھی شراب
گدائے کُوچۂ مے خانہ نامراد نہیں

جہاں میں ہو غم و شادی بہم، ہمیں کیا کام ؟
دیا ہے ہم کو خدا نے وہ دل کہ شاد نہیں

تم اُن کے وعدے کا ذکر اُن سے کیوں کرو غالب
یہ کیا؟ کہ تم کہو، اور وہ کہیں کہ“یاد نہیں“


127[edit]

تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں
ہم بھی مضموں کی ہَوا باندھتے ہیں

آہ کا کس نے اثر دیکھا ہے
ہم بھی اک اپنی ہوا باندھتے ہیں

تیری فرصت کے مقابل اے عُمر!
برق کو پابہ حنا باندھتے ہیں

قیدِ ہستی سے رہائی معلوم!
اشک کو بے سروپا باندھتے ہیں

نشۂ رنگ سے ہے واشُدِ گل
مست کب بندِ قبا باندھتے ہیں

غلطی ہائے مضامیں مت پُوچھ
لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں

اہلِ تدبیر کی واماندگیاں
آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں

سادہ پُرکار ہیں خوباں غالب
ہم سے پیمانِ وفا باندھتے ہیں


128[edit]

زمانہ سخت کم آزار ہے، بہ جانِ اسد
وگرنہ ہم تو توقعّ زیادہ رکھتے ہیں


129[edit]

دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہُوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہُوں میں

کیوں گردشِ مدام سے گبھرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہُوں میں

یا رب، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر نہیں ہُوں میں

حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہگار ہُوں کافَر نہیں ہُوں میں

کس واسطے عزیز نہیں جانتے مجھے؟
لعل و زمرّد و زر و گوھر نہیں ہُوں میں

رکھتے ہو تم قدم مری آنکھوں سے کیوں دریغ؟
رتبے میں مہر و ماہ سے کمتر نہیں ہُوں میں؟

کرتے ہو مجھ کو منعِ قدم بوس کس لیے؟
کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہُوں میں؟

غالب وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے کہ* کہتے تھے نوکر نہیں ہُوں میں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  • کچھ نسخوں میں ’جو‘
  • ’ مہر نے پانچویں۔ چھٹے اور ساتویں شعر کو نعتیہ اشعار میں شمار کیا ہے۔‘



130[edit]

سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں!

یاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں

تھیں بنات النعشِ گردوں دن کو پردے میں نہاں
شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں

قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزنِ دیوارِ زنداں ہو گئیں

سب رقیبوں سے ہوں ناخوش، پر زنانِ مصر سے
ہے زلیخا خوش کہ محوِ ماہِ کنعاں ہو گئیں

جُوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں

ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام
قدرتِ حق سے یہی حوریں اگر واں ہو گئیں

نیند اُس کی ہے، دماغ اُس کا ہے، راتیں اُس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں*

میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کُھل گیا
بلبلیں سُن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں

وہ نگاہیں کیوں ہُوئی جاتی ہیں یارب دل کے پار؟
جو مری کوتاہئ قسمت سے مژگاں ہو گئیں

بس کہ روکا میں نے اور سینے میں اُبھریں پَے بہ پَے
میری آہیں بخیئہ چاکِ گریباں ہو گئیں

واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیاجواب؟
یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہو گئیں

جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا
سب لکیریں ہاتھ کی گویا، رگِ جاں ہو گئیں

ہم موحّد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسُوم
ملّتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں

رنج سے خُوگر ہُوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

یوں ہی گر روتا رہا غالب تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گہیں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  • حالی، یادگارِ غالب میں یوں ہے: جس کے بازو پر تری زلفیں پریشاں ہو گئیں


131[edit]

دیوانگی سے دوش پہ زنّار بھی نہیں
یعنی ہمارے* جیب میں اک تار بھی نہیں

دل کو نیازِ حسرتِ دیدار کر چکے
دیکھا تو ہم میں طاقتِ دیدار بھی نہیں

ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے
دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں

بے عشق عُمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یاں
طاقت بہ قدرِلذّتِ آزار بھی نہیں

شوریدگی کے ہاتھ سے سر ہے وبالِ دوش
صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں

گنجائشِ عداوتِ اغیار اک طرف
یاں دل میں ضعف سے ہوسِ یار بھی نہیں

ڈر نالہ ہائے زار سے میرے، خُدا کو مان
آخر نوائے مرغِ گرفتار بھی نہیں

دل میں ہے یار کی صفِ مژگاں سے روکشی
حالانکہ طاقتِ خلشِ خار بھی نہیں

اس سادگی پہ کوں نہ مر جائے اے خُدا!
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

دیکھا اسد کو خلوت و جلوت میں بارہا
دیوانہ گر نہیں ہے تو ہشیار بھی نہیں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  • جَیب، جیم پر فتح (زبر) مذکّر ہے، بمعنی گریبان۔ اردو میں جیب، جیم پر کسرہ (زیر) کے ساتھ، بمعنی کیسہ (Pocket) استعمال میں زیادہ ہے، یہ لفظ مؤنث ہےاس باعث اکثر نسخوں میں ’ہماری‘ ہے۔ قدیم املا میں یاۓ معروف ہی یاۓ مجہول (بڑی ے)کی جگہ بھی استعمال کی جاتی تھی اس لۓ یہ غلط فہمی مزید بڑھ گئی۔



132[edit]

نہیں ہے رخم کوئی بخیے کے درخُور مرے تن میں
ہُوا ہے تارِ اشکِ یاس، رشتہ چشمِ سوزن میں

ہُوئی ہے مانعِ ذوقِ تماشا، خانہ ویرانی
کفِ سیلاب باقی ہے برنگِ پنبہ روزن میں

ودیعت خانۂ بے دادِ کاوش ہائے مژگاں ہوں
نگینِ نامِ شاہد ہے مرا ہر قطرہ خوں تن میں

بیاں کس سے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کی
شبِ مہ ہو جو رکھ دیں پنبہ دیواروں کے روزن میں

نکو ہش مانعِ بے ربطئ شورِ جنوں آئی
ہُوا ہے خندہ احباب بخیہ جَیب و دامن میں

ہوئے اُس مِہر وَش کے جلوۂ تمثال کے آگے
پَرافشاں جوہرآئینے میں مثلِ ذرّہ روزن میں

نہ جانوں نیک ہُوں یا بد ہُوں، پر صحبت مخالف ہے
جو گُل ہُوں تو ہُوں گلخن میں جو خس ہُوں تو ہُوں گلشن میں

ہزاروں دل دیئے جوشِ جنونِ عشق نے مجھ کو
سیہ ہو کر سویدا ہو گیا ہر قطرہ خوں تن میں

اسد زندانئ تاثیرِ الفت ہائے خوباں ہُوں
خمِ دستِ نوازش ہو گیا ہے طوق گردن میں


133[edit]

مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
سوائے خونِ جگر، سو جگر میں خاک نہیں

مگر غبار ہُوے پر ہَوا اُڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں

یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے؟
کہ غیرِ جلوۂ گُل رہ گزر میں خاک نہیں

بھلا اُسے نہ سہی، کچھ مجھی کو رحم آتا
اثر مرے نفسِ بے اثر میں خاک نہیں

خیالِ جلوۂ گُل سے خراب ہیں میکش
شراب خانے کے دیوار و در میں خاک نہیں

ہُوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ
سوائے حسرتِ تعمیر۔ گھر میں خاک نہیں

ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسد
کُھلا، کہ فائدہ عرضِ ہُنر میں خاک نہیں


134[edit]

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں؟
روئیں گے ہم ہزار بار ۔کوئی ہمیں ستائے کیوں؟

دَیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم، غیر * ہمیں اُٹھائے کیوں؟

جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز ۔پردے میں منہ چھپائے کیوں؟

دشنۂ غمزہ جاں ستاں، ناوکِ ناز بے پناہ
تیرا ہی عکس رُخ سہی، سامنے تیرے آئے کیوں؟

قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟

حسن اور اس پہ حسنِ ظن، رہ گئی بوالہوس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمائے کیوں؟

واں وہ غرورِ عزّ و ناز، یاں یہ حجابِ پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں، بزم میں وہ بلائے کیوں؟

ہاں وہ نہیں خدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہوں دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟

غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا؟ کیجئے ہائے ہائے کیوں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  • کوئی۔ نسخۂ مہر


135[edit]

غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا، کہ یُوں
بوسے کو پُوچھتا ہوں مَیں، منہ سےمجھے بتا کہ یُوں

پُرسشِ طرزِ دلبری کیجئے کیا؟ کہ بن کہے
اُس کے ہر اک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یُوں

رات کے وقت مَے پیے ساتھ رقیب کو لیے
آئے وہ یاں خدا کرے، پر نہ خدا کرے کہ یُوں

’غیر سے رات کیا بنی‘ یہ جو کہا تو دیکھیے
سامنے آن بیٹھنا، اور یہ دیکھنا کہ یُوں

بزم میں اُس کے روبرو کیوں نہ خموش بیٹھیے
اُس کی تو خامُشی میں بھی ہے یہی مدّعا کہ یُوں

میں نے کہا کہ “ بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی“
سُن کر ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ یُوں ؟

مجھ سے کہا جو یار نے ’جاتے ہیں ہوش کس طرح‘
دیکھ کے میری بیخودی، چلنے لگی ہوا کہ یُوں

کب مجھے کوئے یار میں رہنے کی وضع یاد تھی
آئینہ دار بن گئی حیرتِ نقشِ پا کہ یُوں

گر ترے دل میں ہو خیال، وصل میں شوق کا زوال
موجِ محیطِ آب میں مارے ہے دست و پا کہ یُوں

جو یہ کہے کہ ریختہ کیوں کر* ہو رشکِ فارسی
گفتۂ غالب ایک بار پڑھ کے اُسے سُنا کہ یُوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  • نسخۂ مہر میں 'کہ'


136[edit]

ہم بے خودئ عشق میں کر لیتے ہیں سجدے
یہ ہم سے نہ پوچھو کہ کہاں ناصِیہ سا ہیں


137[edit]

اپنا احوالِ دلِ زار کہوں یا نہ کہوں
ہے حیا مانعِ اظہار۔ کہوں یا نہ کہوں

نہیں کرنے کا میں تقریر ادب سے باہر
میں بھی ہوں واقفِ اسرار ۔کہوں یا نہ کہوں

شکوہ سمجھو اسے یا کوئی شکایت سمجھو
اپنی ہستی سے ہوں بیزار۔ کہوں یا نہ کہوں

اپنے دل ہی سے میں احوالِ گرفتارئِ دل
جب نہ پاؤں کوئی غم خوار کہوں یا نہ کہوں

دل کے ہاتھوں سے، کہ ہے دشمنِ جانی اپنا
ہوں اک آفت میں گرفتار ۔کہوں یا نہ کہوں

میں تو دیوانہ ہوں اور ایک جہاں ہے غمّاز
گوش ہیں در پسِ دیوار کہوں یا نہ کہوں

آپ سے وہ مرا احوال نہ پوچھے تو اسد
حسبِ حال اپنے پھر اشعار کہوں یا نہ کہوں


138[edit]

ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
میں دشتِ غم میں آہوۓ صیّاد دیدہ ہوں

ہوں دردمند، جبر ہو یا اختیار ہو
گہ نالۂ کشیدہ، گہ اشکِ چکیدہ ہوں

نے سُبحہ سے علاقہ نہ ساغر سے رابطہ*
میں معرضِ مثال میں دستِ بریدہ ہوں

ہوں خاکسار پر نہ کسی سے ہو مجھ کو لاگ
نے دانۂ فتادہ ہوں ،نے دامِ چیدہ ہوں

جو چاہۓ، نہیں وہ مری قدر و منزلت
میں یوسفِ بہ قیمتِ اوّل خریدہ ہوں

ہر گز کسی کے دل میں نہیں ہے مری جگہ
ہوں میں کلامِ نُغز، ولے ناشنیدہ ہوں

اہلِ وَرَع کے حلقے میں ہر چند ہوں ذلیل
پر عاصیوں کے زمرے میں مَیں برگزیدہ ہوں

ہوں گرمئ نشاطِ تصوّر سے نغمہ سنج
میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں*

جاں لب پہ آئی تو بھی نہ شیریں ہوا دہن
از بسکہ تلخئِ غمِ ہجراں چشیدہ ہوں*

ظاہر ہیں میری شکل سے افسوس کے نشاں
خارِ الم سے پشت بہ دنداں گزیدہ ہوں

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  • واسطہ۔ نسخۂ مہر

کچھ نسخوں میں 'فرقے'

  • مشہور شعر مگر نسخۂ مہر میں درج نہیں

یہ شعر بھی نسخۂ مہر میں درج نہیں

139[edit]

جس دن سے کہ ہم خستہ گرفتارِ بلا ہیں
کپڑوں میں جوئیں بخۓ کے ٹانکوں سے سوا ہیں


140[edit]

میر کے شعر کا احوال کہوں کیا غالب
جس کا دیوان کم از گلشنِ کشمیر نہیں


141[edit]

مے کشی کو نہ سمجھ بےحاصل
بادہ غالب عرقِ بید نہیں


142[edit]

دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں
رکھتا ہے ضد سے کھینچ کے باہر لگن کے پاؤں

دی سادگی سے جان پڑوں کوہکن کے پاؤں
ہیہات کیوں نہ ٹوٹ گیے پیر زن کے پاؤں

بھاگے تھے ہم بہت۔ سو، اسی کی سزا ہے یہ
ہو کر اسیر دابتے ہیں راہ زن کے پاؤں

مرہم کی جستجو میں پھرا ہوں جو دور دور
تن سے سوا فِگار ہیں اس خستہ تن کے پاؤں

اللہ رے ذوقِ دشت نوردی کہ بعدِ مرگ
ہلتے ہیں خود بہ خود مرے، اندر کفن کے، پاؤں

ہے جوشِ گل بہار میں یاں تک کہ ہر طرف
اڑتے ہوئے الجھتے ہیں مرغِ چمن کے پاؤں

شب کو کسی کے خواب میں آیا نہ ہو کہیں
دکھتے ہیں آج اس بتِ نازک بدن کے پاؤں

غالب مرے کلام میں کیوں کر مزہ نہ ہو
پیتا ہوں دھو کے خسروِ شیریں سخن کے پاؤں