دیر و حرم سے گزرے اب دل ہے گھر ہمارا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیر و حرم سے گزرے اب دل ہے گھر ہمارا
by میر تقی میر

دیر و حرم سے گزرے اب دل ہے گھر ہمارا
ہے ختم اس آبلے پر سیر و سفر ہمارا

پلکوں سے تیری ہم کو کیا چشم داشت یہ تھی
ان برچھیوں نے بانٹا باہم جگر ہمارا

دنیا و دیں کی جانب میلان ہو تو کہیے
کیا جانیے کہ اس بن دل ہے کدھر ہمارا

ہیں تیرے آئینے کی تمثال ہم نہ پوچھو
اس دشت میں نہیں ہے پیدا اثر ہمارا

جوں صبح اب کہاں ہے طول سخن کی فرصت
قصہ ہی کوئی دم کو ہے مختصر ہمارا

کوچے میں اس کے جا کر بنتا نہیں پھر آنا
خون ایک دن گرے گا اس خاک پر ہمارا

ہے تیرہ روز اپنا لڑکوں کی دوستی سے
اس دن ہی کو کہے تھا اکثر پدر ہمارا

سیلاب ہر طرف سے آئیں گے بادیے میں
جوں ابر روتے ہوگا جس دم گزر ہمارا

نشوونما ہے اپنی جوں گرد باد انوکھی
بالیدہ خاک رہ سے ہے یہ شجر ہمارا

یوں دور سے کھڑے ہو کیا معتبر ہے رونا
دامن سے باندھ دامن اے ابر تر ہمارا

جب پاس رات رہنا آتا ہے یاد اس کا
تھمتا نہیں ہے رونا دو دوپہر ہمارا

اس کارواں سرا میں کیا میرؔ بار کھولیں
یاں کوچ لگ رہا ہے شام و سحر ہمارا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse