دو دن سے کچھ بنی تھی سو پھر شب بگڑ گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دو دن سے کچھ بنی تھی سو پھر شب بگڑ گئی
by میر تقی میر

دو دن سے کچھ بنی تھی سو پھر شب بگڑ گئی
صحبت ہماری یار سے بے ڈھب بگڑ گئی

واشد کچھ آگے آہ سی ہوتی تھی دل کے تئیں
اقلیم عاشقی کی ہوا اب بگڑ گئی

گرمی نے دل کی ہجر میں اس کے جلا دیا
شاید کہ احتیاط سے یہ تب بگڑ گئی

خط نے نکل کے نقش دلوں کے اٹھا دیئے
صورت بتوں کی اچھی جو تھی سب بگڑ گئی

باہم سلوک تھا تو اٹھاتے تھے نرم گرم
کاہے کو میرؔ کوئی دبے جب بگڑ گئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse