دل گئے آفت آئی جانوں پر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل گئے آفت آئی جانوں پر
by میر تقی میر

دل گئے آفت آئی جانوں پر
یہ فسانہ رہا زبانوں پر

عشق میں ہوش و صبر سنتے تھے
رکھ گئے ہاتھ سو تو کانوں پر

گرچہ انسان ہیں زمیں سے ولے
ہیں دماغ ان کے آسمانوں پر

شہر کے شوخ سادہ رو لڑکے
ظلم کرتے ہیں کیا جوانوں پر

عرش و دل دونوں کا ہے پایہ بلند
سیر رہتی ہے ان مکانوں پر

جب سے بازار میں ہے تجھ سی متاع
بھیڑ ہی رہتی ہے دکانوں پر

لوگ سر دینے جاتے ہیں کب سے
یار کے پاؤں کے نشانوں پر

کجی اوباش کی ہے وہ دربند
ڈالے پھرتا ہے بند شانوں پر

کوئی بولا نہ قتل میں میرے
مہر کی تھی مگر دہانوں پر

یاد میں اس کے ساق سیمیں کی
دے دے ماروں ہوں ہاتھ رانوں پر

تھے زمانے میں خرچی جن کی روپے
پھانسا کرتے ہیں ان کو آنوں پر

غم و غصہ ہے حصے میں میرے
اب معیشت ہے ان ہی کھانوں پر

قصے دنیا میں میرؔ بہت سنے
نہ رکھو گوش ان فسانوں پر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse