دل کے تیں آتش ہجراں سے بچایا نہ گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کے تیں آتش ہجراں سے بچایا نہ گیا
by میر تقی میر

دل کے تیں آتش ہجراں سے بچایا نہ گیا
گھر جلا سامنے پر ہم سے بجھایا نہ گیا

دل میں رہ دل میں کہ معمار قضا سے اب تک
ایسا مطبوع مکاں کوئی بنایا نہ گیا

کبھو عاشق کا ترے جبہے سے ناخن کا خراش
خط تقدیر کے مانند مٹایا نہ گیا

کیا تنک حوصلہ تھے دیدہ و دل اپنے آہ
ایک دم راز محبت کا چھپایا نہ گیا

دل جو دیدار کا قاتل کے بہت بھوکا تھا
اس ستم کشتہ سے اک زخم بھی کھایا نہ گیا

میں تو تھا صید زبوں صید گہ عشق کے بیچ
آپ کو خاک میں بھی خوب ملایا نہ گیا

شہر دل آہ عجب جائے تھی پر اس کے گئے
ایسا اجڑا کہ کسی طرح بسایا نہ گیا

آج رکتی نہیں خامے کی زباں رکھیے معاف
حرف کا طول بھی جو مجھ سے گھٹایا نہ گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse