دل کی طرف کچھ آہ سے دل کا لگاؤ ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کی طرف کچھ آہ سے دل کا لگاؤ ہے
by میر تقی میر

دل کی طرف کچھ آہ سے دل کا لگاؤ ہے
ٹک آپ بھی تو آئیے یاں زور باؤ ہے

اٹھتا نہیں ہے ہاتھ ترا تیغ جور سے
ناحق کشی کہاں تئیں یہ کیا سبھاؤ ہے

باغ نظر ہے چشم کے منظر کا سب جہاں
ٹک ٹھہرو یاں تو جانو کہ کیسا دکھاؤ ہے

تقریب ہم نے ڈالی ہے اس سے جوئے کی اب
جو بن پڑے ہے ٹک تو ہمارا ہی داؤ ہے

ٹپکا کرے ہے آنکھ سے لوہو ہی روز و شب
چہرے پہ میرے چشم ہے یا کوئی گھاؤ ہے

ضبط سرشک خونیں سے جی کیونکے شاد ہو
اب دل کی طرف لوہو کا سارا بہاؤ ہے

اب سب کے روزگار کی صورت بگڑ گئی
لاکھوں میں ایک دو کا کہیں کچھ بناؤ ہے

چھاتی کے میری سارے نمودار ہیں یہ زخم
پردہ رہا ہے کون سا اب کیا چھپاؤ ہے

عاشق کہیں جو ہو گے تو جانو گے قدر میرؔ
اب تو کسی کے چاہنے کا تم کو چاؤ ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse