دل پہنچا ہلاکی کو نپٹ کھینچ کسالا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل پہنچا ہلاکی کو نپٹ کھینچ کسالا
by میر تقی میر

دل پہنچا ہلاکی کو نپٹ کھینچ کسالا
لے یار مرے سلمہ اللہ تعالی

کچھ میں نہیں اس دل کی پریشانی کا باعث
برہم ہی مرے ہاتھ لگا تھا یہ رسالا

معمور شرابوں سے کبابوں سے ہے سب دیر
مسجد میں ہے کیا شیخ پیالہ نہ نوالا

گزرے ہے لہو واں سر ہر خار سے اب تک
جس دشت میں پھوٹا ہے مرے پاؤں کا چھالا

گر قصد ادھر کا ہے تو ٹک دیکھ کے آنا
یہ دیر ہے زہاد نہ ہو خانۂ خالا

جس گھر میں ترے جلوے سے ہو چاندنی کا فرش
واں چادر مہتاب ہے مکڑی کا سا جالا

دشمن نہ کدورت سے مرے سامنے ہو جو
تلوار کے لڑنے کو مرے کیجو حوالہ

ناموس مجھے صافی طینت کی ہے ورنہ
رستم نے مری تیغ کا حملہ نہ سنبھالا

دیکھے ہے مجھے دیدۂ پر خشم سے وہ میرؔ
میرے ہی نصیبوں میں تھا یہ زہر کا پیالا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse