دل و دماغ ہے اب کس کو زندگانی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل و دماغ ہے اب کس کو زندگانی کا
by میر تقی میر

دل و دماغ ہے اب کس کو زندگانی کا
جو کوئی دم ہے تو افسوس ہے جوانی کا

اگرچہ عمر کے دس دن یہ لب رہے خاموش
سخن رہے گا سدا میری کم زبانی کا

سبک ہے آوے جو مندیل رکھ نماز کو شیخ
رہا ہے کون سا اب وقت سرگرانی کا

ہزار جان سے قربان بے پری کے ہیں
خیال بھی کبھو گزرا نہ پرفشانی کا

پھرے ہے کھینچے ہی تلوار مجھ پہ ہر دم تو
کہ صید ہوں میں تری دشمنی جانی کا

نمود کر کے وہیں بحر غم میں بیٹھ گیا
کہے تو میرؔ بھی اک بلبلا تھا پانی کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse