دل میں ہیں وصل کے ارمان بہت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل میں ہیں وصل کے ارمان بہت
by حفیظ جونپوری
299678دل میں ہیں وصل کے ارمان بہتحفیظ جونپوری

دل میں ہیں وصل کے ارمان بہت
جمع اس گھر میں ہیں مہمان بہت

آئے تو دست جنوں زوروں پر
چاک کرنے کو گریبان بہت

میری جانب سے دل اس کا نہ پھرا
دشمنوں نے تو بھرے کان بہت

لے کے اک دل غم کونین دیا
آپ کے مجھ پہ ہیں احسان بہت

ترک الفت کا ہمیں کو ہے غم
وہ بھی ہیں دل میں پشیمان بہت

دل کے ویرانے کا ہے عالم کچھ اور
ہم نے دیکھے ہیں بیابان بہت

خاک ہونے کو ہزاروں حسرت
خون ہونے کو ہیں ارمان بہت

صدمۂ ہجر اٹھانا مشکل
جان دینا تو ہے آسان بہت

رشک جن پر ہے فرشتوں کو حفیظؔ
ایسے دنیا میں ہیں انسان بہت

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse