دل عشق کا ہمیشہ حریف نبرد تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل عشق کا ہمیشہ حریف نبرد تھا
by میر تقی میر

دل عشق کا ہمیشہ حریف نبرد تھا
اب جس جگہ کہ داغ ہے یاں آگے درد تھا

اک گرد راہ تھا پئے محمل تمام راہ
کس کا غبار تھا کہ یہ دنبالہ گرد تھا

دل کی شکستگی نے ڈرائے رکھا ہمیں
واں چیں جبیں پر آئی کہ یاں رنگ زرد تھا

مانند حرف صفحۂ ہستی سے اٹھ گیا
دل بھی مرا جریدۂ عالم میں فرد تھا

تھا پشتہ ریگ باد یہ اک وقت کارواں
یہ گرد باد کوئی بیاباں نورد تھا

گزری مدام اس کی جوانان مست میں
پیر مغاں بھی طرفہ کوئی پیر مرد تھا

عاشق ہیں ہم تو میرؔ کے بھی ضبط عشق کے
دل جل گیا تھا اور نفس لب پہ سرد تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse