دل صاف ہو تو جلوہ گہہ یار کیوں نہ ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل صاف ہو تو جلوہ گہہ یار کیوں نہ ہو
by میر تقی میر

دل صاف ہو تو جلوہ گہہ یار کیوں نہ ہو
آئینہ ہو تو قابل دیدار کیوں نہ ہو

عالم تمام اس کا گرفتار کیوں نہ ہو
وہ ناز پیشہ ایک ہے عیار کیوں نہ ہو

مستغنیانہ تو جو کرے پہلے ہی سلوک
عاشق کو فکر عاقبت کار کیوں نہ ہو

رحمت غضب میں نسبت برق و سحاب ہے
جس کو شعور ہو تو گنہ گار کیوں نہ ہو

دشمن تو اک طرف کہ سبب رشک کا ہے یاں
در کا شگاف و رخنۂ دیوار کیوں نہ ہو

آیات حق ہیں سارے یہ ذرات کائنات
انکار تجھ کو ہووے سو اقرار کیوں نہ ہو

ہر دم کی تازہ مرگ جدائی سے تنگ ہوں
ہونا جو کچھ ہے آہ سو یک بار کیوں نہ ہو

موئے سفید ہم کو کہے ہے کہ غافلاں
اب صبح ہونے آئی ہے بیدار کیوں نہ ہو

نزدیک اپنے ہم نے تو سب کر رکھا ہے سہل
پھر میرؔ اس میں مردن دشوار کیوں نہ ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse