دل دماغ و جگر یہ سب اک بار

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل دماغ و جگر یہ سب اک بار
by میر تقی میر

دل دماغ و جگر یہ سب اک بار
کام آئے فراق میں اے یار

کیوں نہ ہو ضعف غالب اعضا پر
مر گئے ہیں قشون کے سردار

گل پژمردہ کا نہیں ممنون
ہم اسیروں کا گوشۂ دستار

مت نکل گھر سے ہم بھی راضی ہیں
دیکھ لیں گے کبھو سر بازار

سینکڑوں حرف ہیں گرہ دل میں
پر کہاں پائیے لب اظہار

سیر کر دشت عشق کا گلشن
غنچے ہو ہو رہے ہیں سو سو خار

روز محشر ہے رات ہجراں کی
ایسی ہم زندگی سے ہیں بیزار

بحث نالہ بھی کیجیو بلبل
پہلے پیدا تو کر لب گفتار

شکر کر داغ دل کا اے غافل
کس کو دیتے ہیں دیدۂ بے دار

گو غزل ہو گئی قصیدہ سی
عاشقوں کا ہے طول حرف شعار

ہر سحر لگ چلی تو ہے تو نسیم
اے سیہ مست ناز ٹک ہشیار

شاخسانے ہزار نکلیں گے
جو گیا اس کی زلف کا اک تار

واجب القتل اس قدر تو ہوں
کہ مجھے دیکھ کر کہے ہے پکار

یہ تو آیا نہ سامنے میرے
لاؤ میری میاں سپر تلوار

آ زیارت کو قبر عاشق پر
اک طرح کا ہے یاں بھی جوش بہار

نکلے ہے میری خاک سے نرگس
یعنی اب تک ہے حسرت دیدار

میرؔ صاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار

سہل سی زندگی پہ کام کے تیں
اپنے اوپر نہ کیجیے دشوار

چار دن کا ہے مجہلہ یہ سب
سب سے رکھیے سلوک ہی ناچار

کوئی ایسا گناہ اور نہیں
یہ کہ کیجے ستم کسی پر یار

واں جہاں خاک کے برابر ہے
قدر ہفت آسماں ظلم شعار

یہی درخواست پاس دل کی ہے
نہیں روزہ نماز کچھ درکار

در مسجد پہ حلقہ زن ہو تم
کہ رہو بیٹھ خانۂ خمار

جی میں آوے سو کیجیو پیارے
لیک ہوجو نہ درپئے آزار

حاصل دو جہاں ہے یک حرف
ہو مری جان آگے تم مختار

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse