دل جو زیر غبار اکثر تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل جو زیر غبار اکثر تھا
by میر تقی میر

دل جو زیر غبار اکثر تھا
کچھ مزاج ان دنوں مکدر تھا

اس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن
رات دن ہم تھے اور بستر تھا

سرسری تم جہاں سے گزرے
ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا

دل کی کچھ قدر کرتے رہیو تم
یہ ہمارا بھی ناز پرور تھا

بعد یک عمر جو ہوا معلوم
دل اس آئینہ رو کا پتھر تھا

بارے سجدہ ادا کیا تہ تیغ
کب سے یہ بوجھ میرے سر پر تھا

کیوں نہ ابر سیہ سفید ہوا
جب تلک عہد دیدۂ تر تھا

اب خرابہ ہوا جہان آباد
ورنہ ہر اک قدم پہ یاں گھر تھا

بے زری کا نہ کر گلا غافل
رہ تسلی کہ یوں مقدر تھا

اتنے منعم جہان میں گزرے
وقت رحلت کے کس کنے زر تھا

صاحب جاہ و شوکت و اقبال
اک ازاں جملہ اب سکندر تھا

تھی یہ سب کائنات زیر نگیں
ساتھ مور و ملخ سا لشکر تھا

لعل و یاقوت ہم زر و گوہر
چاہیے جس قدر میسر تھا

آخر کار جب جہاں سے گیا
ہاتھ خالی کفن سے باہر تھا

عیب طول کلام مت کریو
کیا کروں میں سخن سے خوگر تھا

خوش رہا جب تلک رہا جیتا
میرؔ معلوم ہے قلندر تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse