دل جو تھا اک آبلہ پھوٹا گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل جو تھا اک آبلہ پھوٹا گیا
by میر تقی میر

دل جو تھا اک آبلہ پھوٹا گیا
رات کو سینہ بہت کوٹا گیا

طائر رنگ حنا کی سی طرح
دل نہ اس کے ہاتھ سے چھوٹا گیا

میں نہ کہتا تھا کہ منہ کر دل کی اور
اب کہاں وہ آئینہ ٹوٹا گیا

دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا

میرؔ کس کو اب دماغ گفتگو
عمر گزری ریختہ چھوٹا گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse