دل بیتاب آفت ہے بلا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل بیتاب آفت ہے بلا ہے
by میر تقی میر

دل بیتاب آفت ہے بلا ہے
جگر سب کھا گیا اب کیا رہا ہے

ہمارا تو ہے اصل مدعا تو
خدا جانے ترا کیا مدعا ہے

محبت کشتہ ہیں ہم یاں کسو پاس
ہمارے درد کی بھی کچھ دوا ہے

حرم سے دیر اٹھ جانا نہیں عیب
اگر یاں ہے خدا واں بھی خدا ہے

نہیں ملتا سخن اپنا کسو سے
ہمارا گفتگو کا ڈھب جدا ہے

کوئی ہے دل کھنچے جاتے ہیں اودھر
فضولی ہے تجسس یہ کہ کیا ہے

مروں میں اس میں یا رہ جاؤں جیتا
یہی شیوہ مرا مہر و وفا ہے

صبا اودھر گل اودھر سرو اودھر
اسی کی باغ میں اب تو ہوا ہے

تماشا کردنی ہے داغ سینہ
یہ پھول اس تختے میں تازہ کھلا ہے

ہزاروں ان نے ایسی کیں ادائیں
قیامت جیسے اک اس کی ادا ہے

جگہ افسوس کی ہے بعد چندے
ابھی تو دل ہمارا بھی بجا ہے

جو چپکے ہوں کہے چپکے ہو کیوں تم
کہو جو کچھ تمہارا مدعا ہے

سخن کریے تو ہووے حرف زن یوں
بس اب منہ موند لے میں نے سنا ہے

کب اس بیگانہ خو کو سمجھے عالم
اگرچہ یار عالم آشنا ہے

نہ عالم میں ہے نے عالم سے باہر
پہ سب عالم سے عالم ہی جدا ہے

لگا میں گرد سر پھرنے تو بولا
تمہارا میرؔ صاحب سرپھرا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse