دزدیدہ نگہ کرنا پھر آنکھ ملانا بھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دزدیدہ نگہ کرنا پھر آنکھ ملانا بھی
by میر تقی میر

دزدیدہ نگہ کرنا پھر آنکھ ملانا بھی
اس لوٹتے دامن کو پاس آ کے اٹھانا بھی

پامالی عاشق کو منظور رکھے جانا
پھر چال کڈھب چلنا ٹھوکر نہ لگانا بھی

برقع کو اٹھا دینا پر آدھے ہی چہرے سے
کیا منہ کو چھپانا بھی کچھ جھمکی دکھانا بھی

دیکھ آنکھیں مری نیچی اک مارنا پتھر بھی
ظاہر میں ستانا بھی پردے میں جتانا بھی

صحبت ہے یہ ویسی ہی اے جان کی آسائش
ساتھ آن کے سونا بھی پھر منہ کو چھپانا بھی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse