در تک اب چھوڑ دیا گھر سے نکل کر آنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
در تک اب چھوڑ دیا گھر سے نکل کر آنا
by شیخ قلندر بخش جرات
296742در تک اب چھوڑ دیا گھر سے نکل کر آناشیخ قلندر بخش جرات

در تک اب چھوڑ دیا گھر سے نکل کر آنا
یا وہ راتوں کو سدا بھیس بدل کر آنا

ہمدمو یہ کوئی رونا ہے کہ طوفان ہے آہ
دیکھیو چشم سے دریا کا ابل کر آنا

قصد جب جانے کا کرتا ہوں میں اس شوخ کے پاس
تیغ ابرو یہ کہے ہے کہ سنبھل کر آنا

حاصل اس کوچے میں جانے سے ہمیں ہے اور کیا
الٹے گھر اپنے مگر خاک میں رل کر آنا

واں سے اول دل بے تاب تو کب آتا ہے
اور آنا بھی تو سو جا پہ مچل کر آنا

ہمدمو میری سفارش کو تو جاتے ہو ولے
کہیں واں جا کے نہ کچھ اور خلل کر آنا

ڈوبے یوں بحر محبت میں کہ اب جیتے جی
اپنا دشوار ہے اوپر کو اچھل کر آنا

کوئے قاتل میں دم نزع کوئی لے جاؤ
جا کے اس جا ہمیں عقدہ ہے یہ حل کر آنا

اس کا بے وجہ نہیں ہے یہ چمن سے باہر
گل مرے سامنے ہاتھوں میں مسل کر آنا

بزم خوباں میں اگرچہ کوئی پرچائے ہزار
پر ترے پاس ہمیں واں سے بھی ٹل کر آنا

جی چلا تن سے مرے جلد ز راہ اشفاق
گھر سے دو چار قدم ایسے میں چل کر آنا

جرأتؔ اس کی کہوں کیا تجھ سے طرح داری میں
جانا جب اٹھ کے تب اک روپ بدل کر آنا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse