در بیان بز

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
در بیان بز
by میر تقی میر

کہتے ہیں جو غم نداری بز بخر
سو ہی لی میں ایک بکری ڈھونڈھ کر
شعر زور طبع سے کہتا ہوں چار
دزدی بزگیری نہیں اپنا شعار
دزد ہے شائستہ خوں ریزی کا یاں
بلکہ بابت ہے بزآویزی کا یاں
میں پڑھوں ہوں اس کے آگے شعر گہ
اپنے ہاں گویا بز اخفش ہے یہ
بکروں کی داڑھی کے تیں جانے ہیں سب
تکہ ریشی بکری کی ہے بوالعجب
رنگ سر سے پاؤں تک اس کا سیاہ
چکنی ایسی جس پہ کم ٹھہرے نگاہ
چار پستاں اس کے آئے دید میں
دو جہاں ہوتے ہیں دو ہیں جید میں
ایک میں ان میں سے تھا مطلق نہ شیر
ایک کو کہتے ہیں اندھے خرد و پیر
اس پہ کالے بکرے دو خیلا جنے
نازنخرے سے رہے پھر انمنے
چارہ بیٹھے کھاتے اک انداز سے
دیتی پٹھ تو ہوتے خوش اس ناز سے
دودھ ہو چوچی میں تو بچہ پیے
بیٹھا دیکھے اس طرف منھ کو کیے
بھوک سے گرم تظلم وے ہوئے
اپنے شایان ترحم وے ہوئے
دودھ منگوایا کیے بازار سے
پھوہوں سے دینا کیا انفار سے
گھاس دانہ بارے کچھ کھانے لگے
گرتے پڑتے پاس بھی آنے لگے
پرورش سے حق کی بارے جی گئے
آب و دانہ دوڑ کر کھا پی گئے
اب جوانی پر جو ہیں وہ شیر مست
کودتے ہیں ہر زماں ہر دم ہیں جست
مستی اپنی ماں پہ کرتے شاد ہیں
عاقبت بکرے ہی کی اولاد ہیں
زور و قوت سے حریفوں کے ہیں ڈھینگ
آہوے جنگی کو دکھلاتے ہیں سینگ
ٹکر ان کی کیا جگر مینڈھا اٹھائے
قوچ سرزن سامنے ہرگز نہ آئے
سرزنی میں شہرۂ آفاق ہیں
لوگ بزگیری کے سب مشتاق ہیں
رنگ کو اس جنگ کا کیا ڈھنگ ہے
دھنستے ہی میداں کا عرصہ تنگ ہے
ہوتے ہی استادہ طاری ہو غشی
کیا بز کوہی سے ہو میداں کشی
تیس ان کی دھاک سن کر مر گیا
غم گوزنوں کو انھوں کا چر گیا
گووہ ٹکر کھا جو ڈکراتا رہا
بزدلی سے گرگ بھی جاتا رہا
مارے پانی پانی کر بکرے اصیل
لکھنؤ سے غل ہے تا بکرے کی جھیل
پاس جانا ان کے اب مسدود ہے
ذبح کرنے کو ہر اک موجود ہے
اس ادا سے جائیں گے چھریوں تلے
کاشکے ہوتے نہ ہاتھوں میں پلے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse