درد کا میرے مداوا وہ کریں یا نہ کریں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
درد کا میرے مداوا وہ کریں یا نہ کریں  (1911) 
by وفا لکھنوی

درد کا میرے مداوا وہ کریں یا نہ کریں
میں ہوں مشکور دم نزع جو پردا نہ کریں

مے سے لبریز عنایت جو وہ پیمانہ کریں
واعظا نوش اسے رند کریں یا نہ کریں

عشق صادق جو ذرا اپنا اثر دکھلا دے
بے حجاب آئیں نظر وہ کبھی پردا نہ کریں

فصل گل آئے بھی صیاد اگر گلشن میں
ہم وہ بلبل ہیں رہائی کی تمنا نہ کریں

تیرے کوچے میں جو مل جائے جگہ مرقد کی
باغ فردوس کی عشاق تمنا نہ کریں

جلوہ گر دل میں ہے تو جن کے کسی صورت وہ
رخ حرم کا نہ کریں عزم کلیسا نہ کریں

تیرے کوچے میں میسر ہے جنہیں روز طواف
کعبے کی سمت وہ بھولے سے بھی سجدہ نہ کریں

اس کا دیدار کسی طرح نہیں ممکن ہے
شکل آئینہ جو ہم دل کو مصفا نہ کریں

یار بالیں پہ ہے ٹھہریں ملک الموت ذرا
روح کے قبض کا کچھ دیر ارادہ نہ کریں

دم کا مہمان ہوں دم لب پہ ہے اے جان جہاں
آپ گھر جانے کا اس وقت ارادہ نہ کریں

مرتے دم نام ترا منہ سے نکل جائے اگر
پھر نکیرین لحد میں کوئی جھگڑا نہ کریں

دیر و کعبہ تو حقیقت میں ہیں اس کے گھر میں
باہمی گبر و مسلماں کوئی جھگڑا نہ کریں

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse