درد و اندوہ میں ٹھہرا جو رہا میں ہی ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
درد و اندوہ میں ٹھہرا جو رہا میں ہی ہوں
by میر تقی میر

درد و اندوہ میں ٹھہرا جو رہا میں ہی ہوں
رنگ رو جس کے کبھو منہ نہ چڑھا میں ہی ہوں

جس پہ کرتے ہو سدا جور و جفا میں ہی ہوں
پھر بھی جس کو ہے گماں تم سے وفا میں ہی ہوں

بد کہا میں نے رقیبوں کو تو تقصیر ہوئی
کیوں ہے بخشو بھی بھلا سب میں برا میں ہی ہوں

اپنے کوچے میں فغاں جس کی سنو ہو ہر رات
وہ جگر سوختہ و سینہ جلا میں ہی ہوں

خار کو جن نے لڑی موتی کی کر دکھلایا
اس بیابان میں وہ آبلہ پا میں ہی ہوں

لطف آنے کا ہے کیا بس نہیں اب تاب جفا
اتنا عالم ہے بھرا جاؤ نہ کیا میں ہی ہوں

رک کے جی ایک جہاں دوسرے عالم کو گیا
تن تنہا نہ ترے غم میں ہوا میں ہی ہوں

اس ادا کو تو ٹک اک سیر کر انصاف کرو
وہ برا ہے گا بھلا دوستو یا میں ہی ہوں

میں یہ کہتا تھا کہ دل جن نے لیا کون ہے وہ
یک بیک بول اٹھا اس طرف آ میں ہی ہوں

جب کہا میں نے کہ تو ہی ہے تو پھر کہنے لگا
کیا کرے گا تو مرا دیکھوں تو جا میں ہی ہوں

سنتے ہی ہنس کے ٹک اک سوچیو کیا تو ہی تھا
جن نے شب رو کے سب احوال کہا میں ہی ہوں

میرؔ آوارۂ عالم جو سنا ہے تو نے
خاک آلودہ وہ اے باد صبا میں ہی ہوں

کاسۂ سر کو لیے مانگتا دیدار پھرے
میرؔ وہ جان سے بیزار گدا میں ہی ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse