دامن وسیع تھا تو کاہے کو چشم ترسا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دامن وسیع تھا تو کاہے کو چشم ترسا
by میر تقی میر

دامن وسیع تھا تو کاہے کو چشم ترسا
رحمت خدا کی تجھ کو اے ابر زور برسا

شاید کباب کر کر کھایا کبوتر ان نے
نامہ اڑا پھرے ہے اس کی گلی میں پر سا

وحشی مزاج از بس مانوس بادیہ ہیں
ان کے جنوں میں جنگل اپنا ہوا ہے گھر سا

جس ہاتھ میں رہا کی اس کی کمر ہمیشہ
اس ہاتھ مارنے کا سر پر بندھا ہے کر سا

سب پیچ کی یہ باتیں ہیں شاعروں کی ورنہ
باریک اور نازک مو کب ہے اس کمر سا

طرز نگاہ اس کی دل لے گئی سبھوں کے
کیا مومن و برہمن کیا گبر اور ترسا

تم واقف طریق بے طاقتی نہیں ہو
یاں راہ دو قدم ہے اب دور کا سفر سا

کچھ بھی معاش ہے یہ کی ان نے ایک چشمک
جب مدتوں ہمارا جی دیکھنے کو ترسا

ٹک ترک عشق کریے لاغر بہت ہوئے ہم
آدھا نہیں رہا ہے اب جسم رنج فرسا

واعظ کو یہ جلن ہے شاید کہ فربہی سے
رہتا ہے حوض ہی میں اکثر پڑا مگر سا

انداز سے ہے پیدا سب کچھ خبر ہے اس کو
گو میرؔ بے سر و پا ظاہر ہے بے خبر سا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse