خوش نہ آئی تمہاری چال ہمیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خوش نہ آئی تمہاری چال ہمیں
by میر تقی میر

خوش نہ آئی تمہاری چال ہمیں
یوں نہ کرنا تھا پائمال ہمیں

حال کیا پوچھ پوچھ جاتے ہو
کبھو پاتے بھی ہو بحال ہمیں

وہ دہاں وہ کمر ہی ہے مقصود
اور کچھ اب نہیں خیال ہمیں

اس مہ چاردہ کی دوری نے
دس ہی دن میں کیا ہلال ہمیں

نظر آتے ہیں ہوتے جی کے وبال
حلقہ حلقہ تمہارے بال ہمیں

تنگی اس جا کی نقل کیا کریے
یاں سے واجب ہے انتقال ہمیں

صرف للہ خم کے خم کرتے
نہ کیا چرخ نے کلال ہمیں

مغ بچے مال مست ہم درویش
کون کرتا ہے مشت مال ہمیں

کب تک اس تنگنا میں کھینچیے رنج
یاں سے یا رب تو ہی نکال ہمیں

ترک سبزان شہر کریے اب
بس بہت کر چکے نہال ہمیں

وجہ کیا ہے کہ میرؔ منہ پہ ترے
نظر آتا ہے کچھ ملال ہمیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse