خوش قداں جب سوار ہوتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خوش قداں جب سوار ہوتے ہیں
by میر تقی میر

خوش قداں جب سوار ہوتے ہیں
سرو و قمری شکار ہوتے ہیں

تیرے بالوں کے وصف میں میرے
شعر سب پیچ دار ہوتے ہیں

آؤ یاد بتاں پہ بھول نہ جاؤ
یہ تغافل شعار ہوتے ہیں

دیکھ لیویں گے غیر کو تجھ پاس
صحبتوں میں بھی یار ہوتے ہیں

صدقے ہو لیویں ایک دم تیرے
پھر تو تجھ پر نثار ہوتے ہیں

تو کرے ہے قرار ملنے کا
ہم ابھی بے قرار ہوتے ہیں

ہفت اقلیم ہر گلی ہے کہیں
دلی سے بھی دیار ہوتے ہیں

رفتہ رفتہ یہ طفل خوش ظاہر
فتنۂ روزگار ہوتے ہیں

اس کے نزدیک کچھ نہیں عزت
میرؔ جی یوں ہی خوار ہوتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse