خود مزے دار طبیعت ہے تو ساماں کیسا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خود مزے دار طبیعت ہے تو ساماں کیسا
by آغا اکبرآبادی
316813خود مزے دار طبیعت ہے تو ساماں کیساآغا اکبرآبادی

خود مزے دار طبیعت ہے تو ساماں کیسا
زخم دل آپ ہیں شورش پہ نمکداں کیسا

ہاتھ وحشت میں نہ پونچھے تو گریباں کیسا
خار صحرا سے نہ الجھے تو وہ داماں کیسا

کوچۂ یار کو دعویٰ ہے کہ جنت میں ہوں
خلد کہتے ہیں کسے روضۂ رضواں کیسا

اسی معبود کا ہے دیر و حرم میں جلوہ
بحث کس بات کی ہے گبر و مسلماں کیسا

وعدۂ بادۂ اطہر کا بھروسہ کب تک
چل کے بھٹی پہ پئیں جرعۂ عرفاں کیسا

ہم ہوئے قیسؔ ہوئے وامقؔ و فرہادؔ ہوئے
زلف پر خم نے کیا سب کو پریشاں کیسا

دور کے ڈھول ہیں یوسف کی کہانی صاحب
کس کو معلوم ہے ہوگا مہ کنعاں کیسا

تیرے قربان میں اتنا تو بتا دے قاتل
میری گردن پہ چلا خنجر براں کیسا

دل کے آئینہ میں تصویر صنم رکھتا ہے
نہیں معلوم کہ آغاؔ ہے مسلماں کیسا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse