خوبی کا اس کی بسکہ طلب گار ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خوبی کا اس کی بسکہ طلب گار ہو گیا
by میر تقی میر

خوبی کا اس کی بسکہ طلب گار ہو گیا
گل باغ میں گلے کا مرے ہار ہو گیا

کس کو نہیں ہے شوق ترا پر نہ اس قدر
میں تو اسی خیال میں بیمار ہو گیا

میں نو دمیدہ بال چمن زاد طیر تھا
پر گھر سے اٹھ چلا سو گرفتار ہو گیا

ٹھہرا گیا نہ ہو کے حریف اس کی چشم کا
سینے کو توڑ تیر نگہ پار ہو گیا

ہے اس کے حرف زیر لبی کا سبھوں میں ذکر
کیا بات تھی کہ جس کا یہ بستار ہو گیا

تو وہ متاع ہے کہ پڑی جس کی تجھ پہ آنکھ
وہ جی کو بیچ کر بھی خریدار ہو گیا

کیا کہیے آہ عشق میں خوبی نصیب کی
دل دار اپنا تھا سو دل آزار ہو گیا

آٹھوں پہر لگا ہی پھرے ہے تمہارے ساتھ
کچھ ان دنوں میں غیر بہت یار ہو گیا

کب رو ہے اس سے بات کے کرنے کا مجھ کو میرؔ
ناکردہ جرم میں تو گنہ گار ہو گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse