خوبرو سب کی جان ہوتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خوبرو سب کی جان ہوتے ہیں
by میر تقی میر

خوبرو سب کی جان ہوتے ہیں
آرزوئے جہان ہوتے ہیں

گوشۂ دیوار تک تو جا نالے
اس میں گل کو بھی کان ہوتے ہیں

کبھو آتے ہیں آپ میں تجھ بن
گھر میں ہم میہمان ہوتے ہیں

دشت کے پھوٹے مقبروں پہ نہ جا
روضے سب گلستاں ہوتے ہیں

حرف تلخ ان کے کیا کہوں میں غرض
خوبرو بد زبان ہوتے ہیں

غمزۂ چشم خوش قدان زمیں
فتنۂ آسمان ہوتے ہیں

کیا رہا ہے مشاعرے میں اب
لوگ کچھ جمع آن ہوتے ہیں

میرؔ و مرزا رفیعؔ و خواجہ میرؔ
کتنے اک یہ جوان ہوتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse