خط سے وہ زور صفائے حسن اب کم ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خط سے وہ زور صفائے حسن اب کم ہو گیا
by میر تقی میر

خط سے وہ زور صفائے حسن اب کم ہو گیا
چاہ یوسف تھا ذقن سو چاہ رستم ہو گیا

سینہ کوبی سنگ سے دل خون ہونے میں رہی
حق بہ جانب تھا ہمارے سخت ماتم ہو گیا

ایک سا عالم نہیں رہتا ہے اس عالم کے بیچ
اب جہاں کوئی نہیں یاں ایک عالم ہو گیا

آنکھ کے لڑتے تری آشوب سا برپا ہوا
زلف کے درہم ہوئے اک جمع برہم ہو گیا

اس لب جاں بخش کی حسرت نے مارا جان سے
آب حیواں یمن طالع سے مرے سم ہو گیا

وقت تب تک تھا تو سجدہ مسجدوں میں کفر تھا
فائدہ اب جب کہ قد محراب سا خم ہو گیا

عشق ان شہری غزالوں کا جنوں کو اب کھنچا
وحشت دل بڑھ گئی آرام جاں رم ہو گیا

جی کھنچے جاتے ہیں فرط شوق سے آنکھوں کی اور
جن نے دیکھا ایک دم اس کو سو بے دم ہو گیا

ہم نے جو کچھ اس سے دیکھا سو خلاف چشم داشت
اپنا عزرائیل وہ جان مجسم ہو گیا

کیا کہوں کیا طرحیں بدلیں چاہ نے آخر کو میرؔ
تھا گرہ جو درد چھاتی میں سو اب غم ہو گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse