خرابی کچھ نہ پوچھو ملکت دل کی عمارت کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خرابی کچھ نہ پوچھو ملکت دل کی عمارت کی
by میر تقی میر

خرابی کچھ نہ پوچھو ملکت دل کی عمارت کی
غموں نے آج کل سنیو وہ آبادی ہی غارت کی

نگاہ مست سے جب چشم نے اس کی اشارت کی
حلاوت مے کی اور بنیاد میخانے کی غارت کی

سحر گہ میں نے پوچھا گل سے حال زار بلبل کا
پڑے تھے باغ میں یک مشت پر اودھر اشارت کی

جلایا جس تجلی جلوہ گر نے طور کو ہم دم
اسی آتش کے پر کالے نے ہم سے بھی شرارت کی

نزاکت کیا کہوں خورشید رو کی کل شب مہ میں
گیا تھا سائے سائے باغ تک تس پر حرارت کی

نظر سے جس کی یوسف سا گیا پھر اس کو کیا سوجھے
حقیقت کچھ نہ پوچھو پیر کنعاں کی بصارت کی

ترے کوچے کے شوق طوف میں جیسے بگولا تھا
بیاباں میں غبار میرؔ کی ہم نے زیارت کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse