خاطر کرے ہے جمع وہ ہر بار ایک طرح

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خاطر کرے ہے جمع وہ ہر بار ایک طرح
by میر تقی میر

خاطر کرے ہے جمع وہ ہر بار ایک طرح
کرتا ہے چرخ مجھ سے نئے یار ایک طرح

میں اور قیس و کوہ کن اب جو زباں پہ ہیں
مارے گئے ہیں سب یہ گنہ گار ایک طرح

منظور اس کو پردے میں ہیں بے حجابیاں
کس سے ہوا دو چار وہ عیار ایک طرح

سب طرحیں اس کی اپنی نظر میں تھیں کیا کہیں
پر ہم بھی ہو گئے ہیں گرفتار ایک طرح

گھر اس کے جا کے آتے ہیں پامال ہو کے ہم
کریے مکاں ہی اب سر بازار ایک طرح

گہ گل ہے گاہ رنگ گہے باغ کی ہے بو
آتا نہیں نظر وہ طرح دار ایک طرح

نیرنگ حسن دوست سے کر آنکھیں آشنا
ممکن نہیں وگرنہ ہو دیدار ایک طرح

سو طرح طرح دیکھ طبیبوں نے یہ کہا
صحت پذیر ہوئے یہ بیمار ایک طرح

سو بھی ہزار طرح سے ٹھہراوتے ہیں ہم
تسکین کے لیے تری ناچار ایک طرح

بن جی دئیے ہو کوئی طرح فائدہ نہیں
گر ہے تو یہ ہے اے جگر افگار ایک طرح

ہر طرح تو ذلیل ہی رکھتا ہے میرؔ کو
ہوتا ہے عاشقی میں کوئی خوار ایک طرح

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse