حصول کام کا دل خواہ یاں ہوا بھی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حصول کام کا دل خواہ یاں ہوا بھی ہے
by میر تقی میر

حصول کام کا دل خواہ یاں ہوا بھی ہے
سماجت اتنی بھی سب سے کوئی خدا بھی ہے

موئے ہی جاتے ہیں ہم درد عشق سے یارو
کسو کے پاس اس آزار کی دوا بھی ہے

اداسیاں تھیں مری خانقہ میں قابل سیر
صنم کدے میں تو ٹک آ کے دل لگا بھی ہے

یہ کہیے کیونکے کہ خوباں سے کچھ نہیں مطلب
لگے جو پھرتے ہیں ہم کچھ تو مدعا بھی ہے

ترا ہے وہم کہ میں اپنے پیرہن میں ہوں
نگاہ غور سے کر مجھ میں کچھ رہا بھی ہے

جو کھولوں سینۂ مجروح تو نمک چھڑکے
جراحت اس کو دکھانے کا کچھ مزہ بھی ہے

کہاں تلک شب و روز آہ درد دل کہیے
ہر ایک بات کو آخر کچھ انتہا بھی ہے

ہوس تو دل میں ہمارے جگہ کرے لیکن
کہیں ہجوم سے اندوہ غم کے جا بھی ہے

غم فراق ہے دنبالۂ گرد عیش وصال
فقط مزہ ہی نہیں عشق میں بلا بھی ہے

قبول کریے تری رہ میں جی کو کھو دینا
جو کچھ بھی پائیے تجھ کو تو آشنا بھی ہے

جگر میں سوزن مژگاں کے تیں کڈھب نہ گڑو
کسو کے زخم کو تو نے کبھو سیا بھی ہے

گزار شہر وفا میں سمجھ کے کر مجنوں
کہ اس دیار میں میرؔ شکستہ پا بھی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse