جیتے جی کوچۂ دل دار سے جایا نہ گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جیتے جی کوچۂ دل دار سے جایا نہ گیا
by میر تقی میر

جیتے جی کوچۂ دل دار سے جایا نہ گیا
اس کی دیوار کا سر سے مرے سایہ نہ گیا

کاو کاو مژۂ یار و دل زار و نزار
گتھ گئے ایسے شتابی کہ چھڑایا نہ گیا

وہ تو کل دیر تلک دیکھتا ایدھر کو رہا
ہم سے ہی حال تباہ اپنا دکھایا نہ گیا

گرم رو راہ فنا کا نہیں ہو سکتا پتنگ
اس سے تو شمع نمط سر بھی کٹایا نہ گیا

پاس ناموس محبت تھا کہ فرہاد کے پاس
بے ستوں سامنے سے اپنے اٹھایا نہ گیا

خاک تک کوچۂ دل دار کی چھانی ہم نے
جستجو کی پہ دل گم شدہ پایا نہ گیا

آتش تیز جدائی میں یکایک اس بن
دل جلا یوں کہ تنک جی بھی جلایا نہ گیا

مہ نے آ سامنے شب یاد دلایا تھا اسے
پھر وہ تا صبح مرے جی سے بھلایا نہ گیا

زیر شمشیر ستم میرؔ تڑپنا کیسا
سر بھی تسلیم محبت میں ہلایا نہ گیا

جی میں آتا ہے کہ کچھ اور بھی موزوں کیجے
درد دل ایک غزل میں تو سنایا نہ گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse