جہاں بات وحدت کی گہری رہے گی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جہاں بات وحدت کی گہری رہے گی  (1926) 
by یاسین علی خاں مرکز

جہاں بات وحدت کی گہری رہے گی
وہاں فکر اپنی نہ تیری رہے گی

لجاجت امیروں سے یک دم اٹھا دے
قناعت سے اپنی فقیری رہے گی

نہ جینے کی خواہش نہ مرنے کا غم ہے
جو حالت ہے اپنی وہ ٹھہری رہے گی

مجلہ ہوا جب سے دل ہے ہمارا
نہ مرقد میں اپنے اندھیری رہے گی

گھمنڈ ہر طرح کرنا زیبا نہیں ہے
جوانی کسی کی نہ پیری رہے گی

خدائی کی قدرت خودی سے ہے مرکزؔ
مقلد ہیں جب تک اسیری رہے گی

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 97 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse