جہاں اب خار زاریں ہو گئی ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جہاں اب خار زاریں ہو گئی ہیں
by میر تقی میر

جہاں اب خار زاریں ہو گئی ہیں
یہیں آگے بہاریں ہو گئی ہیں

جنوں میں خشک ہو رگ ہائے گردن
گریباں کی سی تاریں ہو گئی ہیں

سنا جاتا ہے شہر عشق کے گرد
مزاریں ہی مزاریں ہو گئی ہیں

اسی دریاے خوبی کا ہے یہ شوق
کہ موجیں سب کناریں ہو گئی ہیں

انہیں گلیوں میں جب روتے تھے ہم میرؔ
کئی دریا کی دھاریں ہو گئی ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse