جھمکے دکھا کے طور کو جن نے جلا دیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جھمکے دکھا کے طور کو جن نے جلا دیا
by میر تقی میر

جھمکے دکھا کے طور کو جن نے جلا دیا
آئی قیامت ان نے جو پردہ اٹھا دیا

اس فتنے کو جگا کے پشیماں ہوئی نسیم
کیا کیا عزیز لوگوں کو ان نے سلا دیا

اب بھی دماغ رفتہ ہمارا ہے عرش پر
گو آسماں نے خاک میں ہم کو ملا دیا

جانی نہ قدر اس گہر شب چراغ کی
دل ریزۂ خزف کی طرح میں اٹھا دیا

تقصیر جان دینے میں ہم نے کبھو نہ کی
جب تیغ وہ بلند ہوئی سر جھکا دیا

گرمی چراغ کی سی نہیں وہ مزاج میں
اب دل فسردگی سے ہوں جیسے بجھا دیا

وہ آگ ہو رہا ہے خدا جانے غیر نے
میری طرف سے اس کے تئیں کیا لگا دیا

اتنا کہا تھا فرش تری رہ کے ہم ہوں کاش
سو تو نے مار مار کے آ کر بچھا دیا

اب گھٹتے گھٹتے جان میں طاقت نہیں رہی
ٹک لگ چلی صبا کہ دیا سا بڑھا دیا

تنگی لگا ہے کرنے دم اپنا بھی ہر گھڑی
کڑھنے نے دل کے جی کو ہمارے کھپا دیا

کی چشم تو نے باز کہ کھولا در ستم
کس مدعی خلق نے تجھ کو جگا دیا

کیا کیا زیان میرؔ نے کھینچے ہیں عشق میں
دل ہاتھ سے دیا ہے جدا سر جدا دیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse