جو یہ دل ہے تو کیا سرانجام ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو یہ دل ہے تو کیا سرانجام ہوگا
by میر تقی میر

جو یہ دل ہے تو کیا سرانجام ہوگا
تا خاک بھی خاک آرام ہوگا

مرا جی تو آنکھوں میں آیا یہ سنتے
کہ دیدار بھی ایک دن عام ہوگا

نہ ہوگا وہ دیکھا جسے کبک تو نے
وہ اک باغ کا سرو اندام ہوگا

نہ نکلا کر اتنا بھی بے پردہ گھر سے
بہت اس میں ظالم تو بدنام ہوگا

ہزاروں کی یاں لگ گئیں چھت سے آنکھیں
تو اے ماہ کس شب لب بام ہوگا

وہ کچھ جانتا ہوگا زلفوں میں پھنسنا
جو کوئی اسیر تا دام ہوگا

جگر چاکی ناکامی دنیا ہے آخر
نہیں آئے جو میرؔ کچھ کام ہوگا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse